کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
کے اعمال کو بھی ہاتھ ہی کی طرف منسوب کردیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ سب ان کے ہاتھوں کے اعمال ہیں، اگرچہ دوسرے اعضا کے اعمال بھی ہوتے ہیں۔ سوال نمبر۲: زبان کو ہاتھ کے ساتھ کیوں ملایا؟ لِمَ قَرَنَ اللِّسَانَ بِالْیَدِ؟ جواب: أُجِیْبُ بِأَنَّ الْاِیْذَاءَ بِاللِّسَانِ وَالْیَدِ اَکْثَرُ مِنْ غَیْرِہِمَا زبان اور ہاتھ سے ایذا بہ نسبت دوسرے اعضا کے زیادہ ہوتی ہے۔ احقر عرض کرتا ہے کہ ہاتھ سے پٹائی کے وقت زبان بھی ساتھ کچھ بولتی رہتی ہے۔ ایسا نہیں دیکھا جاتا کہ کوئی ہاتھ سے کسی کو پیٹ رہا ہو اور زبان بالکل خاموش ہو۔ سوال نمبر۳: زبان کو ہاتھ پر کیوں مقدم فرمایا؟ لِمَ قَدَّمَ اللِّسَانَ عَلَی الْیَدِ؟ جواب: أُجِیْبُ بِأَنَّ اِیْذَاءَ اللِّسَانِ اَکْثَرُ وُقُوْعًا وَّأَسْہَلُ لِأَنَّہٗ اَشَدُّ نِکَایَۃً وَلِہٰذَا کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ لِحَسَّانَ: اُھْجُ الْمُشْرِکِیْنَ فَإِنَّہٗ أَشَقُّ عَلَیْہِمْ مِنْ رَشْقِ النَّبْلِ ، وقال الشاعرُ ؎ جَرَاحَاتُ السِّنَانِ لَہَا الْتِیَامٗ وَلَا یَلْتَامُ مَا جَرَحَ اللِّسَانٗ زبان سے ایذا کثیر الوقوع ہے اور آسان ہے اور اس کی ایذابھی شدید ہے، اسی لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسّان رضی اللہ عنہ سے فرماتے تھے کہ مشرکین کی بُرائی میں اشعار کہیے،یہ تیروں کی بارش سے زیادہ ان پر شاق ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ ؎ تیر کا زخم تو بھر بھی جاتا ہے مگر زبان کا زخم نہیں بھرتا سوال نمبر۴: بظاہر حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مَنْ لَّمْ یَسْلَمِ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْہُ لَا یَکُوْنُ مُسْلِمًااگر کسی کی ایذا سے مسلمان سالم نہ رہیں تو وہ کافر ہوجاوے گا، لیکن اجماع اس کے خلاف ہے۔ جواب:اَلْمُرَادُ مِنْہُ الْمُسْلِمُ الْکَامِلُ إِذَا لَمْ یَسْلَمْ مِنْہُ الْمُسْلِمُوْنَ فَلَا یَکُوْنُ