کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
اس حدیث سے درج ذیل فوائد ثابت ہوتے ہیں: ۱) مسلمانوں کو ایذا پہنچانے والے افعال کے ترک کردینے کی ترغیب ہے، اور اس میں راز یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ حسنِ اخلاق کا اہتمام ہو۔ جیسا کہ حضرت خواجہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ ابرار کی تفسیر فرماتے ہیں کہ ’’یہ وہ لوگ ہیں جو ایک چیونٹی کو بھی تکلیف نہیں دیتے اور شر کرنا تو کیا شر سے راضی بھی نہیں ہوتے۔‘‘ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ تمام تصوف کا نچوڑ اور حاصل یہ ہے کہ ہماری ذات سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے۔ حکایت:حضرت پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ایک بزرگ نے کسی کو گناہ کرتے دیکھا، واپس آگئے، چارپائی پر غم سے لیٹ گئے اور جب پیشاب کیا تو غم سے اس میں خون آگیا۔ یااللہ! اپنی رحمت سے ہم سب کو اپنی نافرمانی سے حفاظت نصیب فرما ان بزرگوں کے طفیل جن سے ہم وابستہ ہیں۔ ۲) اس حدیث میں فرقۂ مرجیہ کی تردید ہے جن کے نزدیک اسلام ناقص نہیں ہوتا۔ (یا مسلمان کامل یا کافر ہوتا ہے) ۳) ترکِ معاصی اور نافرمانی سے اجتناب کی ترغیب ہے۔ سوال نمبر۱:یَدٌ کو خاص کیوں کیا جبکہ اور اعضا سے بھی افعال صادر ہوتے ہیںلِمَ خَصَّ الْیَدَ مَعَ أَنَّ الْفِعْلَ قَدْ یَحْصُلُ بِغَیْرِہَا؟ جواب: إِنَّ سَلْطَنَۃَ الْأَفْعَالِ إِنَّمَا تَظْہَرُ فِی الْیَدِ اِذْ بِہَا الْبَطْشُ وَالْقَطْعُ وَالْوَصْلُ وَالْأَخْذُ وَالْمَنْعُ وَالْاِعْطَاءُ وَنَحْوَہٗ،قَالَ الزَّمَخْشَرِیُّ:لَمَّا کَانَتْ اَکْثَرُ الْأَعْمَالِ تُبَاشَرُ بِالْأَیْدِیْ غَلَبَتْ فَقِیْلَ فِیْ کُلِّ عَمَلِ ہٰذَا مِمَّا عَمِلَتْ أَیْدِیْہِمْ وَإِنْ کَانَ عَمَلًا لَا یَأْتِیْ، فِیْہِ الْمُبَاشَرَۃُ بِالْأَیْدِیْ۔ خلاصۂ ترجمہ: اکثر افعال تو ہاتھ ہی سے ہوتے ہیں جیسے پکڑنا، کاٹنا، جوڑنا، دینا، روکنا وغیرہ۔ علامہ زمخشری نے فرمایا کہ جبکہ اکثر اعمال ہاتھ سے ہوتے ہیں تو تغلیباً جملہ اعضا