کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
مُسْلِمًا کَامِلًا وَّذَالِکَ لِأَنَّ الْجِنْسَ إِذَا اُطْلِقَ یَکُوْنُ مَحْمُوْلًا عَلَی الْکَامِلِاس حدیث سے مراد مسلمان کامل ہے کہ جس کی ایذا سے مسلمان محفوظ رہیں،کیوں کہ قاعدہ کلیہ ہے کہ جب اسمِ جنس مطلق بولتے ہیں تو مراد اس کا فردِ کامل ہوتا ہے۔ سوال نمبر۵: مجرمین پر حدود اور تعزیرات اور تادیبات کا اجراء بھی تو ایذا ہے؟ جواب:یہ ایذانہیں ہے بلکہ استصلاح ہےوَطَلَبُ السَّلَامَۃِ لَہُمْ وَلَوْ فِی الْمَاٰلِ ہے۔ معاشرہ کی سلامتی اور امن اس پر موقوف ہے اور شریعت نے اس کو مستثنیٰ قرار دیا ہے۔ سوال نمبر۶: ذمی کفار کو بھی اذیت جائز نہیں ہے اور حدیث میں اس کا ذکر نہیں ہے، صرف مسلمون کا ذکر ہے۔ جواب:بِأَنَّہٗ قَدْ ذُکِرَ الْمُسْلِمُوْنَ بِطَرِیْقِ الْغَالِبِچوںکہ اکثر حالات میں معاملہ مسلمانوں سے ہوتا ہے، اس لیے ان کا ذکر ہے۔ اس قاعدہ کا نام تغلیباً ہے اور ذمی ان کے تابع ہوکر شامل ہیں۔ سوال نمبر۷: حدیث میں مسلمات کا ذکر نہیں ہے، ان کی سلامتی کا کیا ہوگا؟ جواب:أُجِیْبُ ہٰذَا مِنْ بَابِ التَّغْلِیْبِ فَإِنَّ الْمُسْلِمَاتِ یَدْخُلْنَ فِیْ سَائِرِ النُّصُوْصِ وَالْمُخَاطَبَاتِعورتیں تمام احکامِ شریعت میں مردوں کے تابع ہیں۔ جیسےاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وغیرہ میں شامل ہیں جبکہ اَقِیْمُوْا مذکر کا صیغہ ہے۔ سوال نمبر۸: زبان کے اقوال سے اذیت ہوتی ہے نہ کہ زبان سے، پھر اقوال اور کلام کے بجائے زبان کو تعبیر کیوں فرمایا؟لِمَ عَبَّرَ بِاللِّسَانِ دُوْنَ الْقَوْلِ فَإِنَّہٗ لَایَکُوْنُ إِلَّابِاللِّسَانِ؟ جواب: قول کے بجائے زبان کو اس لیے بیان فرمایا کہ بعض وقت شریر آدمی زبان سے کچھ بولتا تو نہیں، مگر مذاق اُڑانے کی نیت سے زبان کو باہر نکال دیتا ہے۔ سبحان اللہ! کیا کلامِ نبوت کی بلاغت ہے اور علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی کمالِ فہم ہے۔ جَزَاہُ اللہُ تَعَالٰی خَیْرًا۔ إِنَّمَا عَبَّرَ بِہٖ دُوْنَ الْقَوْلِ حَتّٰی یَدْخُلَ فِیْہِ مَنْ أَخْرَجَ لِسَانَہٗ عَلٰی سَبِیْلِ الْاِسْتِہْزَاءِ۔