اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
کرتے ہیں کہ اس میں مذہب کا وہ روایتی Traditionalاثر ہے جو ہماری زندگی و ذہن پر مل سکتا ہے اور جس کا اظہار بات بات میں ہوتا رہتا ہے۔ اِس کے علاوہ اللہ آمین کا بچہ ہو جانا ظاہر کرتا ہے کہ بعض بچے بڑے لاڈ پیار اور دعا درود کے سایہ میں پلتے ہیں خاص طور پر ایسے خاندانوں کے لڑکے جہاں بچے بہت کم ہوتے تھے۔ یہ صورت بڑی حد تک اب بھی ہے۔ اللہ توکلی کے معنی یہ ہیں کہ آدمی کو بھروسہ کوئی نہیں ہے کہ اُس کے پاس وسیلہ بھی کوئی نہیں بس جو کچھ ہے وہ اللہ پر بھروسہ ہے کہ غیب سے جو کچھ ہو جائے تو ہو جائے گا۔ اللہ کسی کے دل میں ڈال دے گا تو کام بن جائے گا یہ بھی ہمارے معاشرے کی حالتِ مجبوری اور معذوری کے ساتھ ایک فیصلے پر پہنچنا ہے۔ اللہ اللہ کرو یعنی یہ بات ہونے والی نہیں خواہ مخواہ کی اُمید لگائے بیٹھے ہو۔ اللہ کا نور داڑھی کو بھی کہتے ہیں اور ایسے بچے کو بھی جو کم صورت ہوتا ہے کہ وہ تو اللہ کا نور ہے اُس کی قدرت کا اظہار ہے ویسے اللہ کا نور ہونا بڑی خوبیوں کی طرف اشارہ بھی ہے کہ وہ تو اللہ کے نور میں سے ایک نور ہے۔ اللہ ہی اللہ ہے جب کسی مریض کے اچھا ہونے کی کوئی اُمید نہیں ہوتی ہے تبھی یہ بات زبان پر آتی ہے کہ اُس کی اللہ اللہ ہو رہی ہے۔ اللہ مارا یا خدا مارا ہمارے محاورات میں سے ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ جو کچھ تم کر رہے ہو، وہ خدا کی مار ہے مگر عام طور پر یہ کلمہ محبت میں کہا جاتا ہے۔ اِس کو اللہ سنوارے کے روپ میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی مریض بہت بری حالت سے واپس ہوتا ہے تو اُس کو اللہ کے گھر سے پھرنا کہتے ہیں جس کے یہ معنی ہیں کہ مر جانا اللہ کے گھر جانا ہے اللہ کو پیارا ہونا ہے۔ اللہ والے یا اللہ کے لوگ دہلی میں فقیروں کو کہتے ہیں ۔ اس کے قریبی معنی رکھنے والا محاورہ اللہ کے لوگ ہیں یعنی وہ تو درویش خدا مست ہیں مل گیا تو بھی ٹھیک ہے نہ ملا تب بھی ٹھیک ہے اس معنی میں یہ تمام محاورے ہمارے معاشرے اور اس کے ایک خاص طرز فکر کے آئینہ دار ہیں ۔ الہی مہر یا الہی رات بھی اسی طرز فکر کے نمائندہ محاورے ہیں ۔ الٰہی رات کسی مقدس اور متبرک رات کو کہتے ہیں جیسے شبِ معراج اگرچہ الٰہی رات کا استعمال اردو میں بہت کم ہے الٰہی مہر تصدیق کرنے کے لئے مہر لگائی جاتی ہے جس کے بعد وہ