اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
تقریب کے سلسلہ میں جو چھڑیاں گاڑی جاتی ہیں وہ بھی نیلی ہوتی ہیں ۔ مدراس کے قریب سمندر گہرے نیلے رنگ کا ہے اسی لئے ہندوؤں میں دیوتاؤں کا رنگ روپ نیلا رکھا جاتا ہے نیلا گنڈا بیماریوں اور بری نظر کے اثرات سے محفوظ رکھنے کے لئے بطور تعویذ گلے میں باندھا جاتا ہے۔ جس کو بدصورت عورت ظاہر کرنا مقصود ہوتا اُسے کالی بھینس کہتے ہیں اور اگر اس کا رنگ بہت کالا ہوتا ہے تو اس کو کالی بلی کہہ کر یاد کیا جاتا ہے کالا دیو بدصورت ہونے کے علاوہ بد ہیئت بھی ہوتا ہے یہ کردار داستانوں میں پیش کیا جاتا رہا ہے کسی کالی پیلی گئی گزری لڑکی کی ہو کلچڑی کہتے ہیں جیسے منحوس قرار دینا ہوتا ہے اسے کل موہا یا کل موہی کہہ کر یا د کیا جاتا ہے۔ جو رات بے چینی تکلیف اور انتظار میں گزاری جاتی ہے اسے رات کا لی کرنا کہتے ہیں بہت کالے رنگ کو بھورے کے رنگ سے تشبیہ دی جاتی ہے تو اسے کالا بھونگ کہتے ہیں بہت کالے رنگ والا آدمی کالا بھجنگ کہلاتا ہے وہ بھی مشہور ہے کہ کالے سانپ پر بجلی گرتی ہے اس سے ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ ذہنی طور پر ہم اپنی زندگی میں کالے رنگ سے کیا کیا باتیں منسوب کی ہیں ۔ بچے ایک گیت گاتے ہیں اس میں آتا ہے۔ کالا کالا گِر گیا اماں ماریں گی اسی میں کالی ہانڈی سرپر رکھنے کے محاورے کو بھی شامل کیجئے کہ وہ بدنامی مول لینے کو کہتے ہیں کہ مفت میں یہ کالی ہانڈی کون اپنے سرپر رکھے کالا اکھشر بھینس برابر ایسا آدمی جو بالکل جاہل ہوتا ہے اور کوئی حرف پڑھ ہی نہیں سکتا اس کے لئے کہا جاتا ہے اس کے واسطے کہا جاتا ہے کہ کالا اکھشر بھینس برابر ہے کالا کلوٹا بھی کا لے ہی کے سلسلے میں ایک محاوراتی کلمہ ہے۔