اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
جاتے ہیں ان کے لئے کہا جاتا ہے کہ ان کی زبان تالو سے نہیں لگتی بعض اپنے آس پاس کے لوگوں سے بہت خطرے میں رہتے ہیں ان کو بتیس دانتوں کے بیچ میں رہنے والی زبان سے تشبیہہ دیتے ہیں کچھ لوگ اپنی بات کہنا چاہتے ہیں وہ یہ کہتے نظر آتے ہیں ۔ میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں کاش پوچھو کہ مُدعا کیا ہے (غالب) بعض لوگوں کو اپنی زبان دانی پر فخر ہوتا ہے اور وہ داغ کی طرح یہ کہتے نظر آتے ہیں ۔ اُردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغسارے جہاں میں دھُوم ہماری زباں کی ہے غرض لوگ اپنے سامنے کسی کو بولنے نہیں دیتے وہ زبان اور کہلاتے ہیں بعض لوگوں کی زبان میں بہت تلخی اور کڑواہٹ ہوتی ہے وہ کڑوی زبان والے کہلاتے ہیں اسی طرح زبان کے بارے میں بہت سے محاورات کا لمبا سلسلہ ہے جس میں کسی نہ کسی لحاظ سے زبان کا اپنا اسلوب اظہار طریقہ گفتگو اور زبان پر قدرت کے پہلو سامنے آتے ہیں اور اُن پر تبصرہ دوسروں کی طرف سے ہوتا ہے اور ایسے ہی فقرہ زبان کے بارے میں ہمارے یہاں بہت ملتے ہیں یہ شاعری میں تو زیادہ کھیل ہی زبان کے حُسنِ استعمال کا ہوتا ہے اور لطف زبان پر زور دیا جاتا ہے اُردو کا شعر ہے۔ بیانِ حُرمتِ صہبا صحیح مگر اے شیختری زبان سے اُس کا مزہ نہیں جاتا بہت سے شعروں کو ہم زبان کی خوبصورتی کے اعتبار سے زبان کا شعر کہتے ہیں اور اِس طرح بیان کی داد دیتے ہیں زبان و بیان کی بات تو ہماری زبان پر آتی رہتی ہے۔