کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
مَنْ جَاہَدَ بِکُلِّیَّتِہٖ وَشَرَاشِرِہٖ فِیْ ذَاتِہٖ عَزَّوَجَلَّ تَجَلّٰی لَہُ الرَّبُّ عَزَّ اسْمُہُ الْجَامِعُ فِیْ صِفَۃِ النُّصْرَۃِ وَالْاِعَانَۃِ تَجَلِّیًا تَامًّا؎ یعنی جو کلی طور پر مجاہدہ کرتا ہے اور مجاہدہ کرتے کرتے جان کی بازی لگادیتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی تجلی تامّہ اس کو ڈھانپ لیتی ہے۔ تفسیر مظہری میں لکھا ہے کہ قَالَتِ الصُّوْفِیَّۃُ:اِنَّ اللہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ ۔ مَعِیَّۃً غَیْرَ مُتَکَیِّفَۃٍ یُدْرِکُہَا بَصَائِرُ أَہْلِ الْبَصَارَۃِ؎ یعنی صوفیائے کرام رحمہم اللہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی معیت ایسی چیز ہے جو غیرمتکیفہ ہے (یعنی جس کی ناپ تول ممکن نہیں ہے) جس کا صرف اہلِ بصیرت ہی ادراک کرسکتے ہیں۔ جیسے کہ مولانا روم نے فرمایا ہے ؎ اتصالے بے تکیف بے قیاس ہست ربّ الناس باجانِ ناس فائدہ:مجاہدہ کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے مخلصین کا درجہ دیا ہے اور نفس کے ساتھ اپنی معیت اور نصرت کا وعدہ فرمایا ہے۔ جیسا کہ آیتِ مذکورہ میں وارد ہے۔ پہلے مجاہدہ کا ذکر پھر خوشخبری معیتِ حق کی۔ مُحْسِنِیْنَ کا ترجمہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے مخلصین فرمایا ہے۔ پس معلوم ہوا کہ جو لوگ صرف وظائف پڑھتے ہیں اور گناہ ترک کرنے کا مجاہدہ نہیں کرتے بلکہ مجاہدوں سے بھاگتے ہیں یہ سالکین مخلصین نہیں ہیں کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا مخلص بندہ وہی کہلائے گا جو رضائے حق کے لیے تکالیف اُٹھائے گا ؎ پہنچنے میں ہوگی جو بے حد مشقت تو راحت بھی کیا انتہائی نہ ہوگی ------------------------------