کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
زندگی کی جس رگ و پے میں دنیا پرستی رچی ہوئی ہو، بسی ہوئی ہو کیا اس سے اس بات کی توقع کی جاسکتی ہے کہ بستر جان کنی پر ہونٹ سے نکلے ہوئے آخری الفاظ لَااِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ کی گواہی دے رہے ہوں گے؟ اے وہ شخص جو کل قبر میں جائے گا تجھے آخر کس چیز نے دھوکے میں ڈال رکھا ہے؟ کیا تجھے یہ اُمید ہے کہ یہ کمبخت دنیا تیرے ساتھ رہے گی۔ تیرے یہ وسیع مکان اور باغ، تیرے یہ نرم بستر اور گرمی سردی کے کپڑے تیرے ساتھ جائیں گے۔ یاد رکھ! جب ملک الموت آکر مسلط ہوجائے گا کوئی چیز اس کو ٹال نہ سکے گی۔ افسوس صد افسوس! اے وہ شخص جو آج اپنے مرنے والے باپ، بھائی اور بیٹے کے کفن کا انتظام کررہا ہے کل کو تجھے یہ سب کچھ پیش آنا ہے ؎ مال و اولاد تری قبر میں جانے کو نہیں تجھ کو دوزخ کی مصیبت سے چھڑانے کو نہیں جز عمل قبر میں کوئی بھی تیرا یار نہیں کیا قیامت ہے کہ تو اس سے خبردار نہیں یوں تو دنیا دیکھنے میں فتنہ ساماں تھی مگر قبر میں جاتے ہی دنیا کی حقیقت کھل گئی ہو رہی ہے عمر مثل برف کم چپکے چپکے رفتہ رفتہ دم بدم سانس ہے اک رہرو ملک عدم دفعۃً اک روز یہ جائے گا تھم ایک دن مرنا ہے آخر موت ہے کرلے جو کرنا ہے آخر موت ہے