کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
خدا کی قسم! وہ لوگ مال کی کثرت کی وجہ سے قابلِ رشک تھے۔ ہزاروں رکاوٹوں کے باوجود وہ خوب مال کماتے تھے اور جمع کرتے تھے اور اس مال کو جمع کرنے میں ہر قسم کی تکالیف کو خوشی سے برداشت کرتے تھے لیکن اب دیکھو کہ مٹی نے ان کے جسموں کا کیا حال کردیا۔ کیڑوں نے ان کے جوڑوں اور ہڈیوں کا کیا حال بنادیا؟ وہ لوگ اونچی اونچی مسہریوں اور نرم نرم گدوں پر خادموں کے درمیان آرام کرتے تھے۔ عزیز و اقارب، رشتہ دار اور پڑوسی ہر وقت دلداری کو رہتے تھے، لیکن اب کیا ہورہا ہے؟ آواز دے کر ان سے پوچھو کہ کیا گزر رہی ہے؟ غریب امیر سب ایک میدان میں پڑے ہوئے ہیں۔ مال داروں کو ان کے مال نے کیا دیا؟ غریبوں کو ان کی غریبی نے کیا نقصان پہنچایا؟ ان کی زبان جو بہت چہکتی تھی اس کا حال پوچھ! ان کی روشن آنکھیں جو ہر طرف دیکھتی تھیں کیا ہوئیں؟ ان کے خوبصورت چہرے کا حال پوچھ کیا ہوا؟ ان کی نرم کھال والے جسم کہاں چلے گئے۔ کیڑوں نے ان کا کیا حشر بنادیا؟ آہ! کہاں گئے ان کے وہ خُدّام (نوکر چاکر) جو ہر وقت حاضر رہتے تھے؟ کہاں ہیں ان کے وہ خیمے اور کمرے؟ کہاں ہیں ان کے وہ مال اور خزانے جن کو جمع کرکے رکھتے تھے؟ ان کی شان و شوکت نے قبر میں جاتے وقت کوئی توشہ بھی نہ دیا۔ ان کی قبر میں کوئی بستر اور تکیہ بھی نہ بچھادیا۔ قبر پر سایہ کے لیے کوئی درخت اور پھلواری بھی نہ لگادی۔ آہ! اب وہ بالکل اکیلے اور اندھیرے میں پڑے ہیں، اب ان کے لیے رات دن برابر ہیں، نہ کسی سے مل سکتے ہیں نہ کسی کو اپنے پاس بلاسکتے ہیں۔ کتنے نازک بدن مرد اور عورتیں تھیں۔ آج ان کے بدن سڑگئے، اعضا ایک دوسرے سے جُدا ہوگئے۔ آنکھیں نکل کر گر پڑیں۔ منہ میں پانی پیپ اور لہو بھرا ہوا ہے۔ سارے بدن میں کیڑے رینگ رہے ہیں۔ ادھر یہ اس حال میں پڑے ہیں اور ان کے وارثان مزے اُڑا رہے ہیں۔ بیٹوں نے مکان اور جائیداد پر قبضہ کرلیا اور وارثوں نے مال تقسیم کیا۔ ہاں! مگر بعض خوش نصیب ایسے بھی ہیں جنہوں نے اس دھوکے کے گھر یعنی دنیا میں قبر کو یاد رکھا اور اپنے لیے توشہ جمع کیا اور اپنے پہنچنے سے پہلے اپنا سامان بھیج دیا۔ وہ اپنی قبر میں مزے اُڑا رہے ہیں۔ ترو تازہ چہروں کے ساتھ راحت و آرام کے ساتھ۔