کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
یہ چند باتیں احقر نے حضرت کی زبان مبارک سے جو سنی تھیں اُمتِ مسلمہ کے لیے مفید سمجھ کر ضبط کردیں۔ حضرت کی رحلت سے ہم سب خدّام کے قلوب میں لوڈشیڈنگ کی طرح اچانک نور کی کمی محسوس ہوئی۔ اہل اللہ کے انتقال سے شعوری اور غیرشعوری طور پر ہر خاص و عام کا قلب متأثر ہوتا ہے۔ حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ سے احقر کا تعلق ۱۹۵۰ء سے تھا۔ حضرت جونپور سے پھولپور تشریف لایا کرتے تھے اور اپنے اشعار عارفانہ حضرت شیخ پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ کو بہت کیف سے سنایا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ حضرت کے درجات کو ساعۃً فساعۃً متزائدًا متبارکاً متصاعدًا بلند فرمائیں اور جملہ پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائیں۔ تمام زندگی حضرت کی سراپا اس سوال کا جواب تھی کہ اہل اللہ کی صحبت سے کیا ملتا ہے؟ حضرت کے خلفاء کی خاصی تعداد ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مجالسِ ارشاد سے مخلوق کو استفادہ کی توفیق بخشیں اور شرفِ قبول عطا فرمائیں۔ جنازہ میں تقریباً تمام اکابر علماء اور طلباء اور صلحاء نیز عمائد شہر، بادشاہ سے لے کر فقیر تک تقریباً ہر طبقہ کا آدمی شریک تھا۔ حضرت عارف باللہ بزبانِ حال یہ شعر پڑھتے ہوئے منزلِ آخرت کی طرف عازمِ سفر ہوئے ؎ شکریہ اے قبر تک پہنچانے والو شکریہ اب اکیلے ہی چلے جائیں گے اس منزل سے ہم حضرت شاہ مظہر جانِ جاناں رحمۃ اللہ علیہ انتقال سے قبل اپنے پسماندگان کی تسلی کے لیے اپنے روزنامچہ میں یہ شعر تحریر فرماگئے تھے ؎ لوگ کہتے ہیں کہ مظہر مرگیا اور مظہر درحقیقت گھر گیا حضرت خواجہ صاحب مجذوب رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قطعہ بھی ایسے موقع پر یاد آتا ہے جو