کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
ہر تلخیِ فراقِ حسینانِ کائنات اپنی مٹھاسِ ذکر سے شیریں بنادیا تیسرا شعر ؎ ہر لمحۂ حیات گزارا ہم نے آپ کے نام کی لذت کا سہارا لے کر پھر سوچئے کہ جب اللہ والوں کے دل میں جنت کے خالق کا نورِ خاص جلوہ آفریں ہے تو ان کا قلب سرچشمۂ لذاتِ کائنات نہ ہوگا اور ان کے پاس بیٹھ کر جنت کی بہار نہ معلوم ہوگی! اور حافظ شیرازی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ شعر نہ پڑھوگے ؎ چوں حافظ گشت بیخود کے شمارد بیک جو مملکت کاؤس و کے را جب حافظ شیرازی اللہ تعالیٰ کی محبت میں مست و شاد ہوتا ہے تو پھر تمام عالم اور کائنات کے تخت و تاج نگاہوں سے گرجاتے ہیں۔ مملکتِ کاؤس و کے کو ایک جو کے برابر بھی نہیں شمار کرسکتا، مصاحبِ خورشید ستاروں کو نگاہ میں کب لاسکتا ہے ؎ یہ کون آیا کہ دھیمی پڑگئی لَو شمعِ محفل کی پتنگوں کے عوض اُڑنے لگیں چنگاریاں دل کی حضرت ملّا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ شرح مرقاۃ میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے عاشقوں کو ایک جنت دنیا میں عطا فرماتے ہیں اور ایک جنت آخرت میں۔ دنیا میں جنت تعلق مع اللہ کی لذت ہے اور آخرت کی جنت لقائے مولیٰ اور دیدارِ حق کی لذت ہے۔عربی عبارت کی نقل یہ ہے:وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ قَالَ بَعْضُ الصُّوْفِیَّۃِ : جَنَّۃٌ مُعَجَّلَۃٌ فِی الدُّنْیَا بِالْحُضُوْرِ مَعَ الْمَوْلٰی وَجَنَّۃٌ مُؤَجَّلَۃٌ فِی الْاٰخِرَۃِ بِلِقَاءِ الْمَوْلٰی وَالدَّرَجَاتِ الْعُلٰی اور ایک جنت دنیا میں توفیقِ ذکر اور اعمالِ صالحہ کی حلاوت کی ہوتی ہے اور ایک جنت ترکِ معاصی کی حلاوت اور لذت کی ہوتی ہے،کیوں کہ معاصی انسان کو دوزخ کی کلفت میں مبتلا کردیتے ہیں۔جَنَّۃٌ لِّعَمَلِ الطَّاعَۃِ