کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
ب پر تشدید ہے،اصل میںتَحَابَبَا۔یعنی دو مسلمان اللہ کے لیے محبت میں شریک ہوں، اور ایک دوسرے سے حقیقی محبت کریں نہ کہ صرف اظہارِ زبانی۔ ( اِجْتَمَعَا عَلٰی ذَالِکَ وَتَفَرَّقَا عَلَیْہِ) أَیْ عَلَی الْحُبِّ الْمَذْکُوْرِ، وَالْمُرَادُ أَنَّہُمَا دَامَا عَلَی الْمَحَبَّۃِ الدِّیْنِیَّۃِ وَلَمْ یَقْطَعَاہَا بِعَارِضٍ دُنْیَوِیٍّ سَوَاءٌ اِجْتَمَعَا حَقِیْقَۃً أَمْ لَا حَتّٰی فَرَّقَ بَیْنَہُمَا الْمَوْتُ مراد یہ ہے کہ دو مسلمانوں کی محبت صرف دین کی خاطر سے ہو اور اس محبت کو دنیوی اغراض کی وجہ سے ضایع نہ کریں، اور آپس کا یہ اجتماع چاہے حقیقی ہو یا معنوی ہو یعنی چاہے ظاہری فاصلے ہوں مگر دل ملے ہوئے ہوں۔ یہاں تک کہ موت ہی اُن کو جدا کرے۔ فائدہ: احقر عرض کرتا ہے کہ دل کا ملنا بہت ضروری ہے ورنہ اگر قلوب نہ ملیں تو اجسام کا ملنا غیرمفید ہے۔ شاعر کہتا ہے ؎ آدمی آدمی سے ملتا ہے دل مگر کم کسی سے ملتا ہے ۵) رَجُلٌ طَلَبَتْہُ امْرَاَۃٌ ذَاتُ مَنْصِبٍ الٰخ: أَیْ إِلٰی نَفْسِہَا یعنی اپنے نفس کی طرف دعوت دے، اور بروایت امام بیہقی فَعَرَضَتْ نَفْسَہَا عَلَیْہِیعنی اس عورت نے اپنے نفس کو پیش کردیا، اور ظاہر یہ ہے کہ اس نے بُرائی کی طرف دعوت دی۔ وَبِہٖ جَزَمَ الْقُرْطُبِیُّاور علامہ قرطبی کی بھی رائے یہی ہے۔ پس جس شخص نے اس کی دعوتِ گناہ کو رد کردیا اور کہہ دیا کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں، اس کو بھی روزِ محشر عرش کا سایہ نصیب ہوگا۔ ۶) وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ اِخْفَاءً اس کی تشریح واضح ہے کہ مخلوق سے مخفی صدقہ کرنا چاہیے، اور اس کی محدثین رحمہم اللہ نے یہی مصلحت لکھی ہے کہ اخفاء کی بدولت ریا سے حفاظت رہتی ہے۔