کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
نسب و حسب و صاحبِ جمال عورت نے شہوت کی طرف دعوت دی اور اس نے کہہ دیا کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں۔ (۶) اور وہ آدمی جس نے ایسا مخفی صدقہ دیا کہ بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ ہوئی جو کچھ اس نے داہنے ہاتھ سے دیا۔ (۷) اور وہ آدمی جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ تشریح: حافظ علامہ ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ جنہوں نے بخاری کی شرح فتح الباری چودہ جلدوں میں تحریر فرمائی ہے۔ فتح الباری، جلد۲، صفحہ۱۴۳ تا ۱۴۷ پر اس حدیث کی شرح تحریر فرماتے ہیں:۱) سایہ سے مراد اللہ تعالیٰ کے عرش کا سایہ ہے۔ جیسا کہ دوسری روایت میں ’’سَبْعَۃٌ یُّظِلُّہُمُ اللہُ فِیْ ظِلِّ عَرْشِہٖ‘‘آیا ہے۔ اس حدیث کے راوی سلمان ہیں جو اسناد حسن سے وارد ہیں۔۲) جوان کو اس لیے خاص کیا کہ جوانی میں غلبۂ شہوت کے سبب عبادت مشکل ہوتی ہے پس جوان کی عبادت غلبۂ تقویٰ کی دلیل ہے۔ حدیثِ سلمان میں یہ عبارت ہے: أَفْنٰی شَبَابَہٗ وَنَشَاطَہٗ فِیْ عِبَادَۃِ اللہِ یعنی وہ جوان جو اپنی جوانی کو اور اپنے عیش و نشاط کو اللہ تعالیٰ کی عبادت میں فنا کردے۔ ۳) قلب کو مسجد میں معلق کرنا علامت ہے شدتِ محبت مع الحق کی، کہ جب گھر سے اتنی محبت ہے تو گھر والے سے یعنی اللہ تعالیٰ سے کتنی ہوگی؟ اور اس حدیث میں دلالت ہے مسجد میں رہ کر عبادت میں دیر تک مشغول رہنے کی اور ضرورتاً مسجد سے باہر رہتے ہوئے دل مسجد میں لگے رہنے کی۔ کیا خوب شعر ہے مولانا اسعد اللہ صاحب سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ کا ؎ گو ہزاروں شغل ہیں دن رات میں لیکن اسعدؔ آپ سے غافل نہیں اور احقر کا ایک شعر ہے جو اللہ والوں کی شان بیان کرتا ہے ؎ دنیا کے مشغلوں میں بھی یہ باخدا رہے یہ سب کے ساتھ رہ کے بھی سب سے جدا رہے ۴) تَحَابَّا:بِتَشْدِیْدِ الْبَاءِ،أَصْلُہٗ تَحَابَبَا أَیْ اِشْتَرَکَا فِیْ جِنْسِ الْمَحَبَّۃِ، وَأَحَبَّ کُلٌّ مِنْہُمَا الْاٰخَرَ حَقِیْقَۃً لَا اِظْہَارًا فَقَطْ