کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
محبت رکھتے ہیں اور میری وجہ سے آپس میں بیٹھتے ہیں اور میری وجہ سے ایک دوسرے کی زیارت کرتے ہیں اور میری وجہ سے ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہیں میری محبت ان کے لیے واجب ہوجاتی ہے۔ یہ وجوبِ احسانی اور تفضّلی کہلاتا ہے۔ یعنی قانوناً اور ضابطہ سے حق تعالیٰ شانہٗ پر واجب نہیں، صرف احساناً اور فضلاً واجب فرمالیتے ہیں۔ ان لوگوں کے لیے جو آپس میں اللہ تعالیٰ کے لیے محبت کرتے ہیں۔ فِیْ بمعنی لِأَجْلِیْ ہے اس لیے فرمایا کہ اور جو آپس میں میری رضا کے لیے مجالست کرتے ہیں، باب تحابب فرمایا تاکہ محبت کا دونوں طرف سے ظہور ہونا ثابت ہو اور تجالس سے دونوں طرف سے مجالست کا اہتما م یعنی شیخ اور طالب کا ہر دو طرف سے محبت اور مجالست کا اہتمام ہو۔ جیسا کہ وَاصۡبِرۡ نَفۡسَکَ مَعَ الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ رَبَّہُمۡ بِالۡغَدٰوۃِ وَ الۡعَشِیِّ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔ ہمارے مرشد شاہ عبدالغنی رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ اس آیت سے معلوم ہوا کہ شیخ کو چاہیے کہ صبر کے ساتھ مجلس میں بہ اہتمام بیٹھ کر طالبین کی تربیت اور اصلاح کی باتیں سنائے اور طالبین کو ذکر کا اہتمام بھی کرنا چاہیے۔ جیسا کہ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْسے ظاہر ہے تاکہ نورِ ذکر کی برکت سے انوارِ الٰہیہ بواسطہ مرشد کے انجذاب ہوسکے۔ نور، نور کا جاذب ہوتا ہے ،اور طالب کا اخلاص بھی شرط ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ کو مراد بناوے۔ کشف ،خواب اور خلافت یا دنیا کی طلب نہ رکھے جو کہ یُرِیْدُوْنَ وَجْہَہٗسے ظاہر ہورہا ہے۔ اخلاص اور اہتمامِ ذکر سے مرشد کا قلب خودبخود فیضان کا جام و مینا انڈیل دے گا جو کہ وَ لَا تَعۡدُ عَیۡنٰکَ عَنۡہُمۡ ؎ سے ظاہر ہورہا ہے ؎ تشنگاں گر آب جویند از جہاں آب ہم جوید بعالم تشنگاں مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر پیاسے تلاش کرتے ہیں جہاں میں پانی کو تو پانی بھی جہاں میں اپنے پیاسوں کو تلاش کرتا ہے ؎ ------------------------------