کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مقبولین کو فوراً تلافی کی توفیق بھی عطا کی جاتی ہےاور اللہ تعالیٰ کے مقبول بندے عین مؤاخذہ اور احتساب کے وقت بھی تحقیر اور اہانت کا قصد نہیں کرتے۔ حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں تو کسی سے عین باز پُرس کے وقت بھی بحمداللہ اس کا استحضار رکھتا ہوں کہ یہ شخص مجھ سے لاکھوں درجہ افضل ہے اور یہ استحضار کوئی کمال کی بات نہیں، اس لیے کہ موٹی سی بات ہے کہ کسی کو معلوم نہیں کہ عنداللہ اس کا کیا درجہ ہے، مگر اصلاح کی ضرورت باز پُرس پر مجبور کرتی ہے اور بعض اوقات جس پر میں مؤاخذہ کرتا ہوں وہ بات فی نفسہٖ اس درجہ کی نہیں ہوتی جس درجہ کا اس پر احتساب ہوتا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ میں اس کی منشا کو دیکھتا ہوں اور بعض جرم منشا کے اعتبار سے کبائر سے بھی سخت ہوتا ہے، اس لیے ہر جرم میں یہ خیال کرنا چاہیے کہ گو یہ صورتاً صغیرہ ہے مگر ممکن ہے کہ منشا کے اعتبار سے کبائر سے بھی بڑھ کر ہو اور اس لیے کہیں اس پر مؤاخذہ بڑا نہ ہو۔ گو یہ اس کو ہلکا سمجھے ہوئے ہے۔ اسی سلسلہ میں یہ بھی فرمایا کہ میں سچ عرض کرتا ہوں کئی مرتبہ خیال ہوا کہ اس اصلاح کے کام کو چھوڑدوں اور یہ چھوڑ دینا آسان ہے لیکن جب تک اس کو چھوڑا نہ جاوے اس وقت تک اصلاح کا جو طریق ہے اس کے خلاف کرنے کو جی نہیں چاہتا اور مفید بھی نہیں ہوتا۔ یہ تجربہ ہے کہ اگر نرمی سے بٹھلاکر سمجھادیا جاوے تو اس کو اس کا قبیح ہونا معلوم نہیں ہوتا، لیکن سیاست ہی کا طریق اختیا رکرنا پڑتا ہے۔؎ ہمارے مرشد حضرت پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ حق تعالیٰ شانہٗ نے حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ کو ایسی شانِ محبوبیت عطا فرمائی تھی کہ لوگ ان کی دار و گیر پر فدا رہتے تھے اور متوحش نہ ہوتے تھے۔ ہم لوگوں کو حضرت والا اس دار و گیر کے طرز سے منع فرمایا کرتے تھے کہ اُمتِ مسلمہ مبادا تم لوگوں کا ناز نہ اُٹھاسکے۔ نوٹ: علمائے ربّانیّین کا جب یہ مقام ہے تو انبیاء علیہم السلام کا کیا مقام ہوگا؟ ------------------------------