کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
جب کسی کو ڈانٹتے تھے تو اس وقت اس مراقبہ کا استحضار فرماتے کہ جیسے کسی شاہزادے نے جرم کیا ہو اور بھنگی جلاد کو حکمِ شاہی ہوا ہو کہ اس شہزادے کو درّے لگائیں۔ تو کیا اس بھنگی جلاد کے دل میں درّے مارتے وقت کہیں یہ بھی وسوسہ ہوسکتا ہے کہ میں اس شاہزادے سے افضل ہوں؟ ؎ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ والوں کے غصہ کو اہلِ نفس اپنے اوپر قیاس نہ کریں ورنہ شیطان اللہ والوں کے فیوض و برکات سے محروم کردے گا۔ حکایت:ایک دوکاندار بنیے نے طوطا پال رکھا تھا۔ یہ طوطا خوب باتیں کرکے خریداروں کو خوش کرتا تھا۔ ایک دن دوکاندار نہ تھا اور اچانک ایک بلی نے کسی چوہے کو پکڑنے کے لیے حملہ کیا اس طوطے نے سمجھا کہ شاید مجھے پکڑنا چاہتی ہے۔ یہ اپنی جان بچانے کے لیے ایک طرف کو بھاگا۔ اسی طرف بادام کے تیل کی بوتل رکھی تھی سارا تیل گرگیا۔ جب دوکاندار آیا تو اس نے اپنی گدی پر تیل کی چکناہٹ محسوس کی اور دیکھا کہ بوتل سے تیل گرگیا ہے۔ اس نے غصہ میں طوطے کے سر پر ایسی چوٹ لگائی کہ جس سے اس کا سر گنجا ہوگیا۔ یہ طوطا اس دوکاندار سے ناراض ہوگیا اور بولنا چھوڑ دیا۔ طوطے کے اس فعل سے دوکاندار کو سخت پریشانی ہوئی اور بہت ندامت ہوئی کہ میں اب کیا کروں کیوں کہ دوکاندار کو اس کی باتوں سے بڑا لطف ملتا تھا۔ کئی روز تک اس طوطے کی خوشامد کی۔ طرح طرح کے پھل دیے کہ خوش ہوجاوے لیکن طوطا بالکل خاموش تھا۔ اس دوکان پر جو خریدار آتے وہ بھی اس کے خاموش رہنے سے تعجب اور افسوس کرتے۔ ایک دن اس دوکان کے سامنے سے ایک کمبل پوش فقیر سر منڈائے ہوئے گزرا تو یہ طوطا فوراً بلند آواز سے بولا کہ اے گنجے! تو کس سبب سے گنجا ہوا، تُو نے بھی بوتل سے تیل گرادیا ہوگا۔ طوطے کے اس قیاس سے لوگوں کو ہنسی آگئی کہ اس نے کمبل پوش فقیر کو بھی اپنے اوپر قیاس کیا۔ اس واقعہ سے رجوع کرتے ہوئے مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ نصیحت فرماتے ہیں ؎ ------------------------------