کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
ہر تلخی حیات و غمِ روزگار کو تیری مٹھاسِ ذکر نے شیریں بنادیا گرچہ میں دور ہوگیا لذتِ کائنات سے حاصلِ کائنات کو دل میں لیے ہوں میں جہانِ رنگ و بو میں ہر طرف بس آب و گل پایا مگر عاشق کے آب و گل میں ہم نے دردِ دل پایا اللہ تعالیٰ کا نور ہماری زبان سے دل میں اور دل سے روح میں داخل ہوجاتا ہے۔ اس ترتیب کو احقر نے ایک شعر میں پیش کیا ہے ؎ نورِ حق از ذکرِ حق درجاں رسد از زباں در دل زدل تاجاں رسد (اخترؔ) اللہ کا نور بذریعۂ ذکر اللہ زبان سے دل میں اور دل سے پھر روح میں داخل ہوجاتا ہے۔ شرح: یَضَعَ قَدَمَہٗ:جہنم کا پیٹ بھرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کا اس میں اپنا قدم مبارک رکھنے کی شرح یہ ہے کہ علامہ شیخ قسطلانی القاہری شافعی اپنی شرح میں ارقام فرماتے ہیں:حَتّٰی یَضَعَ قَدَمَہٗ أَیْ رَبُّ الْعِزَّۃِ فِیْہَا أَیْ یُذَلِّلُہَا تَذْلِیْلَ مَنْ وُضِعَ تَحْتَ الرِّجْلِ وضع قدم سے مراد جہنم کو ذلیل کرنا، دبادینا، اس کی طغیانی کو خاموش کردینا ہے۔؎ حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ شرح بخاری فتح الباری، جلد۸، صفحہ شاملہ۵۹۲ پر ارقام فرماتے ہیں:اَلْمُرَادُ إِذْلَالُ جَہَنَّمَ فَإِنَّہَا إِذَا بَالَغَتْ فِی الطُّغْیَانِ وَطَلَبِ الْمَزِیْدِ أَذَلَّہَا اللہُ فَوَضَعَہَا تَحْتَ الْقَدَمِ ، وَلَیْسَ الْمُرَادُ حَقِیْقَۃَ ا لْقَدَمِ ،وَالْعَرَبُ تَسْتَعْمِلُ أَلْفَاظَ الْأَعْضَاءِ فِیْ ضَرْبِ الْأَمْثَالِ وَلَا ------------------------------