کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
جانِ توچو غنچہ اے طالب بداں اندرونش دردِ حق دارد نہاں اے طالب! تیری جان مثل کلی اپنے اندر دردِ حق کی خوشبو پوشیدہ رکھتی ہے۔ چوں بگیری صحبت اہلِ نظر غنچہ بکشاید نسیم آں سحر تو جب اہلِ نظر کی صحبت اختیار کرے گا تو یہ صحبت تیری روح کی کلی کو شگفتہ کردے گی، اس کی صحبت مثل نسیمِ سحری ہے۔ گر نگیری از تغافل راہ بر کے شوی از غنچہ تو گلہائے تر اور اگر غفلت سے کسی راہ بر کو نہ پکڑا تو تیری کلی کیسے گلِ تر ہوگی۔ غنچہ را ایں کرّ وفر در انجمن ہست از فیض نسیمے در چمن اے مخاطب! اگر انجمن میں تو کسی کلی کو خلعتِ گل میں آراستہ اس کا کرّوفر مشاہدہ کرتا ہے تو یقین کرلے کہ چمن میں نسیمِ سحری کا فیض اس کو پہنچا ہے۔ حضرت شاہ فضلِ رحمٰن گنج مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ تہجد کی نماز کے بعد جب خاص قربِ حق کی خوشبو اپنی جان میں محسوس کرتے تھے تو یہ شعر خاص وجہ سے گنگناتے تھے ؎ بادِ نسیم آج بہت مشکبار ہے شاید ہوا کے رُخ پہ کھلی زُلفِ یار ہے حضرت رومی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس خوشبو ئے قربِ خاص کو اس طرح بیان فرمایا ہے ؎ بوئے آں دلبر چوں پرّاں می شود ایں زباں ہا جملہ حیراں می شود