کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
بن کر ایک روپے کاایک بکے گا اور انسانوں کے دلوں کو طاقت کے لیے عزت سے استعمال ہوگا۔ دوسرا بے تربیت یافتہ سورج کی شعاعوں سے خشک اور سیاہ رو ہوکر جھاڑو سے اکٹھا ہوکر بوروں میں ٹھونس کر بنیوں کے یہاں پھینک دیا جائے گا۔ صورت اور سیرت دونوں مسخ ہوں گی۔ بہت قیمت لگے گی تو گھٹیا دام سے تر پھلا کے نام سے بکے گا اور کسی کو قبض ہوگا یا قبض سے انجراتِ رویہ اعضائے رئیسہ کی طرف صعود کریں گے تو اس کندۂ ناتراش بے تربیت آملہ کا سفوف کھلادیا جائے گا اور آنتوں سے پاخانہ دھکیلنے کی خدمت سپرد ہوگی۔ لوگوں کا قبض دفع کرنے کی خدمت مثل جمعدار سپرد کردی جائے گی۔ یہ ہے استغنا عن اہل الحق اور تکبر کا انجام ؎ ہر کہ خدمت کرد او مخدوم شد ہر کہ خود را دید او محروم شد اسی طرح دوسری مثال بھی عجیب ہے۔ چمن میں صبح صبح نسیم سحری باغوں کی کلیوں کو تھپیڑوں کا مجاہدہ کراکے ان کی سیل (مہر) توڑ دیتی ہے اور وہ شگفتہ ہوکر اپنی اندرونی خوشبو کی امانت کو اندرونِ چمن اور بیرونِ چمن پھیلاکر خرامانِ چمن کو مست و سرشار کرتی ہیں۔ علامہ شبلی نعمانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حقیقت کو اپنے اس شعر میں خوب بیان فرمایا ہے ؎ بوئے گُل سے یہ نسیمِ سحری کہتی ہے حجرۂ غنچہ میں کیا کرتی ہے آ سیر کو چل احقر کا بھی اس مضمون پر شعر ہے ؎ غنچہ سہتا ہے چمن میں سختیٔ بادِ سحر اس کے دامن میں عطا ہوتی ہے پھولوں کی مہک اس حقیقت پر احقر کے چند اشعار فارسی میں جو معارفِ مثنوی میں طبع ہوئے ہیں ؎ بوئے خوش از غنچہ کے آمد بروں تا نہ شد پیشِ نسیمے سرنگوں کلی سے اچھی خوشبو کب ظاہر ہوئی جب تک بادِ نسیم کے سامنے زانوئے استفادہ نہ رکھا۔