کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
طرف راہ دکھایا اور ہم کو اپنے پاس سے رحمتِ خاصّہ عطا فرمائیے (یعنی راہِ مستقیم پر جماکر رکھیے) اور آپ بڑے عطا فرمانے والے ہیں۔ علامہ آلوسی سید محمود بغدادی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر روح المعانی میں فرماتے ہیں کہ عدمِ ازاغت کے مقابلے میں جس رحمت کو طلب کرنے کا ذکر ہے، اس سے مراد رحمتِ عام کے ساتھ یہاں رحمتِ خاص بھی ہے: اَلْمُرَادُ بِالرَّحْمَۃِ الْإِنْعَامُ الْخَاصُّ وَہُوَ التَّوْفِیْقُ لِلثَّبَاتِ عَلَی الْحَقِّ ، وَفِیْ سُؤَالِ ذَالِکَ بِلَفْظِ الْہِبَۃِ إِشَارَۃٌ إِلٰی أَنَّ ذَالِکَ مِنْہُ تَعَالٰی تَفَضُّلٌ مَحْضٌ مِنْ غَیْرِشَائِبَۃِ وُجُوْبٍ عَلَیْہِ عَزَّشَأْنُہٗ؎ اس رحمت سے مراد رحمتِ خاصّہ ہے اور وہ حق پر رہنے کی توفیق ہے،اور لفظِ ہبہ سے سوال سکھانے میں تعلیم ہے کہ جس طرح ہبہ بدون معاوضہ ہوتا ہے اور صرف عنایاتِ واہب سے ہوتا ہے اسی طرح استقامت کی نعمت محض عطائے حق ہے، فضلِ محض ہے، ضابطہ سے نہیں ملے گا، صرف زاری اور الحاح سے دعا کرنے سے ملے گا۔ کما قال العارف الرومی رحمہ اللہ تعالٰی ؎ زور را بگذار و زاری را بگیر رحم سوئے زاری آید اے فقیر طاقت سے یہ دولت نہیں ملتی، رونے سے کام بنتا ہے، اے فقیر! رحمتِ حق سوئے گریہ و زاری متوجہ ہوتی ہے۔ اور اِنَّکَ اَنْتَ الْوَہَّابُسوال کی تعلیل ہے۔ یعنیلِأَنَّکَ أَنْتَ الْوَہَّابُہم آپ سے اس رحمتِ خاصّہ کو بطورِ ہبہ اس لیے مانگتے ہیں کہ آپ بہت بخشش کرنے والے اور بہت عطا کرنے والے ہیں۔ واہ رے میرے کریم مالک! مانگنے والوں کے لیے اپنی کیسی صفت بیان فرمادی کہ ہر گناہ گار یہ دولت مانگ لے، حجاب نہ ہو۔ ------------------------------