کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
اس حدیث کے راوی حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ ہیں، ان سے روایت ہے کہ ایک شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ مجھ کو نصیحت (وعظ) فرمائیے اور مختصر فرمائیے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین جملوں میں وعظ فرمایا: إِذَا قُمْتَ فِیْ صَلَا تِکَ فَصَلِّ صَلَا ۃَ مُوَدِّعٍ جب تم نماز میں کھڑے ہو تو اس نماز کو آخری نماز سمجھ کر خوب احسن طریقے سے ادا کرو۔ حلِ لغت: مُوَدِّعٍ کی دال مُشدَّد ہے اور اس پر کسرہ ہے۔ شرح:صَلَاۃَ مُوَدِّعٍ:أَیْ مُوَدِّعٍ لِمَا سِوَی اللہِ بِالْاِسْتِغْرَاقِ فِیْ مُنَاجَاۃِ مَوْلَا ہُ۔ اپنے مولیٰ کی مناجات کے لیے ماسوی اللہ کا تارک ہوجا۔ مُلّا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح فرماتے ہوئے لکھتے ہیں کہ أَیْ اِجْعَلْ صَلَاتَکَ اٰخِرَ الصَّلَاۃِ فَرْضًا فَحَسِّنْ خَاتِمَۃَ عَمَلِکَ وَأَقْصِرْ طُوْلَ أَمَلِکَ لِاحْتِمَالِ قُرْبِ أَجَلِکَ اپنی نماز کو آخری نماز فرض کرو اور اپنے عمل کے خاتمہ کو حسین کرلو اور اپنے طول اَمل کو مختصر کرو، اس سبب سے کہ نہ معلوم کب موت آجائے۔ حضرت علامہ طیبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں أَیْ فَأَقْبِلْ عَلَی اللہِ بِشَرَاشِرِکَ وَوَدِّعْ غَیْرَکَ لِمُنَا جَا ۃِ رَبِّکَ۔ وَلَا تَکَلَّمْ بِکَلَامٍ تَعْذِرُ مِنْہُ غَدًا ایسا کلام مت کرو کہ کل قیامت کے دن تم کو ندامت ہو۔ اور آدمی کے اسلام کا حسن یہ ہے کہ لایعنی اور غیرمفید بات کو چھوڑ دے۔ أَیْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ، وَہُوَ الْمَعْنٰی بِقَوْلِہٖ مِنْ حُسْنِ اِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْکُہٗ مَالَا یَعْنِیْہِ۔ شرح: وَأَجْمِعِ الْاِیَاسَ: مراد اس سےیہ ہے کہ اپنی اُمیدوں کو قطع کردو اور ترکِ طمع کردو۔ مِمَّا فِیْ أَیْدِی النَّاسِ:أَیْ قَنَاعَۃً بِالْکِفَایَۃِ الْمُقَدَّرَۃِ بِالْقِسْمَۃِ الْمُحَرَّرَۃِ الْمُقَرَّرَۃِ۔ یعنی قناعت کرنا اور کافی سمجھنا اس چیز کو جو اللہ تعالیٰ نے مقدر