کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
نوٹ: علم سے مراد علمِ شرعی ہے۔ وَمَنْ مَّاتَ وَہُوَ یَطْلُبُ الْعِلْمَ (أَیْ اَلْعِلْمَ الشَّرْعِیَّ) فَھُوَ شَہِیْدٌ علامہ شامی ابنِ عابدین رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ جس شخص کی موت طالبِ علمی کے زمانہ میں ہو اس کو شہادت کی موت نصیب ہوگی۔طلبِ علم کی حالت میں موت شہادت ہے۔ اگرچہ پورا انہماک نہ ہو کہ ایک دن میں صرف ایک ہی درس لیتا ہو تو وہ بھی اس فضیلت میں شامل ہے۔إِنْ کَانَ لَہُ اشْتِغَالُ بِہٖ تَالِیْفًا أَوْتَدْرِیْسًا أَوْ حُضُوْرًا فِیْمَا یَظْہَرُ وَلَوْکُلَّ یَوْمٍ دَرْسًا وَلَیْسَ الْمُرَادُ الْاِنْہِمَاکَ علم کے ساتھ اشتغال کا مفہوم یہ ہے کہ خواہ تالیف کا سلسلہ ہو یا تدریس کا یا صرف کسی درس میں شامل ہوتا ہو اگرچہ ایک دن میں ایک ہی درس ہو یعنی انہماک مراد نہیں۔؎ علامہ ابنِ کثیر دمشقی رحمۃ اللہ علیہ علماء کی فضیلت میں ابنِ ماجہ کی یہ روایت پیش کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے نافع بن عبدالحارث کی عسفان میں ملاقات ہوئی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو مکہ کا گورنر بنایا تھا۔ پس فرمایا کہ اے نافع! تم نے مکہ میں اپنی جگہ کس کو نائب بنایا ہے؟ نافع نے جواب دیا کہ میں نے اپنے غلاموں میں سے ایک غلام ابن البزی کو نائب بنایا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تم نے ایک غلام کو اپنا خلیفہ بنایا؟ جواب دیا کہ وہ کتاب اللہ کے قاری ہیں اور فرائض کے عالم ہیں اور علمِ قضاسے بھی واقف ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ خوب غور سے سنو! کہ تمہارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إِنَّ اللہَ یَرْفَعُ بِہٰذَا الْکِتَابِ اَقْوَامًا وَّیَضَعُ بِہٖ اٰخَرِیْنَ ؎ اللہ تعالیٰ اپنی اس کتاب کے ذریعے سے قوموں کو بلندی دیتا ہے بوجہ ان کی اطاعت کے اور علمِ کتاب کے اور اسی کتاب کے ذریعے دوسری قوموں کو ذلیل کرتا ہے بسبب ان کی ناقدری کے۔ ------------------------------