کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
غرض قرعہ پر اتفاق ہوا، تب بھی ان ہی کا نام نکلا، آخر ان کو دریا میں ڈال دیا اور خدا کے حکم سے ان کو ایک مچھلی نگل گئی۔؎ بدون انتظارِ وحی اس مقام سے چلے جانے کا علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے حسن وشعبی رحمہما اللہ و سعید بن جبیرجلیل القدر تابعی اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی سے یہ جواب نقل فرمایا ہے: وَیَنْبَغِیْ أَنْ یُّتَأَوَّلَ لِمَنْ قَالَ ذَالِکَ مِنَ الْعُلَمَاءِ کَالْحَسَنِ وَ الشَّعْبِیِّ وَابْنِ جُبَیْرٍ وَغَیْرِہِمْ مِنَ التَّابِعِیْنَ وَابْنِ مَسْعُوْدٍ مِنَ الصَّحَابَۃِ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ بِأَنْ یَّکُوْنَ مَعْنٰی قَوْلِہِمْ لِرَبِّہٖ لِاَجْلِ رَبِّہٖ تَعَالٰی وَحَمِیَّۃً لِّدِیْنِہٖ، فَاللَّامُ لَا مُ الْعِلَّۃِ، وَمَا وَرَدَ مِنْ بَعْضِ السَّلَفِ مُغَاضِبًا لِّرَبِّہٖ فَمَعْنَاہُ مُغَاضِبًا لِّأَجْلِ رَبِّہٖ،لَا عَلٰی رَبِّہٖ ،فَافْہَمْ خلاصۂ ترجمہ یہ ہے کہ بعض سلف نے جو مُغَاضِبًا لِّرَبِّہٖ سے تفسیر کی ہے، اس کا مفہوم لام تعلیلیہ کے پیشِ نظر مُغَاضِبًا لِّأَجْلِ رَبِّہٖ ہے۔ یعنی اپنے رب ہی کے لیے یہ غصہ تھا اور اپنی دینی حمیت کے لیے تھا۔ اور حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ احقر کے نزدیک اس تفسیر کا ادلال پر محمول کرلینا اقرب و الطف ہے۔ (ادلال کے معنیٰ ادل علیہ کسی کی محبت پر بہت اعتبار کرلینا) خلاصہ یہ ہے کہ حضرت سیدنا یونس علیہ السلام کا ذِہاب (جانا) تین سبب سے تھا:مُغَاضِبًا لِّأَجْلِ رَبِّہٖ وَحَمِیَّۃً لِّدِیْنِہٖ وَغَلَبَۃَ الْاِعْتِمَادِ عَلٰی مَحَبَّۃِ رَبِّہٖیہ جانا تین سبب سے تھا۔ اپنے رب ہی کے لیے غضبناک ہوئے اور اپنی دینی حمیت اور غیرت کے سبب تھا، اور حق تعالیٰ شانہٗ کی محبت پر غلبۂ اعتماد کے سبب تھا۔ اس میں نمبر ۳ جو آخری جملہ ہے وَغَلَبَۃَ الْاِعْتِمَادِ عَلٰی مَحَبَّۃِ رَبِّہٖ حضرت اقدس تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا جواب ہے جو نہایت اقرب و الطف ہے۔ اور حضرت یونس علیہ السلام کا باوجود عصمت و براءت اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ میں ذنب کی نسبت اپنی طرف کرنا مجازاً ہے جو غلبہ استحضار ------------------------------