کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
عارض و گیسو کی ہیں یہ عارضی گل کاریاں چند دن میں ہوں گی یہ ننگِ خزاں پھلواریاں ان کے چہروں سے نمک کچھ دن میں جب جھڑ جائے گا میر اُن کو دیکھ کر تو شرم سے گڑجائے گا ایک دن بگڑا ہوا جغرافیہ ہوگا صنم دیکھ کر جس کو تو ہوگا محوِ حسرت محوِ غم مال و دولت دین و ایماں آبرو و چین و وقار سب لٹا کے ایک دن ہوگا یقیناً شرمسار بارہا دیکھا کہ کیسے کیسے خورشید و قمر چند دن گزرے کہ آئے وہ خمیدہ سی کمر آہ جن آنکھوں سے شربتِ روح افزا تھا عیاں چند دن گزرے کہ ان آنکھوں سے اُٹھتا تھا دھواں سرخی رُخسار جو تھی آہ کل برگ گلاب عاشقوں کا دل تھا جس کو دیکھ کر مثل کباب چند دن گزرے کہ وہ چہرے ہونّق ہوگئے عاشقوں کے چہرۂ الفت بھی احمق ہوگئے ڈھونڈتا ہے میر اب اُن کے لبوں کی سرخیاں پر نظر آئیں فقط چہرے پہ ان کے جھرّیاں ان کی زلفِ سیاہ پر جب سے سفیدی چھاگئی ہر کلی اختؔر غمِ حسرت سے پھر مرجھاگئی