کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
اس عالم نے اس قاتل سے کہا کہ تو اس خبیث بستی سے جس میں کہ تو ہے نکل جا فلاں صالحین کی بستی کی طرف۔ فائدہ: بخاری شریف کی اس حدیث سے مقبولانِ بارگاہِ الٰہی اور اہل اللہ کی عظمتوں کا پتا چلتا ہے جنہوں نے اپنی خاک کو خالقِ افلاک پر فدا کیا۔ ایسی مبارک ہستیوں کی قیمتوں کا کیا کہنا کہ جس زمین پر یہ لوگ رہتے ہیں اس زمین کی برکت کا یہ عالم ہے کہ سو قتل کے مجرم کی مغفرت اور اس پر رحمت کا نزول اور اس کی توبہ کی قبولیت، جبکہ اس قادر مطلق اور غفّار اور تواب اور ارحم الراحمین کی طرف سے ہر زمین پر ممکن تھی، لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی عنایاتِ خاصّہ اور الطاف و کرم کے ظہور اور نزول کے لیے اہل اللہ کے رہنے سہنے کی سرزمین کو تجویز فرمایا۔ سبحان اللہ! جو اللہ کا ہوجاتا ہے وہ مالک کریم اس کی خاک کو تو عزت دیتا ہی ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ اس زمین کو بھی عزت بخشتا ہے جہاں ایسے مقبول بندے رہتے ہیں، اور اس کی قیمت کا اندازہ حدیثِ مذکور سے ہوتا ہے۔ برعکس اس کے جو لوگ اپنی مٹی کو مٹی کی حسین صورتوں پر، مٹی کے پراٹھوں اور کبابوں پر اور مٹی کے مکانوں اور مٹی کے نوٹ کی گڈیوں پر اور مٹی کے لباسوں پر اور مٹی کے بنگلوں اور موٹروں پر فدا ہوکر اپنے خالق اور مالک کو بھول گئے ان کی خاک ان تمام مٹیوں کے ساتھ مل کر مٹی ہوگئی۔ قیامت کے دن ان کی مٹی کے ساتھ یہی مٹیاں مثبت ہوجائیں گی اور میزان مٹی ہی آئے گا اور ان کی مٹی کا تمام مجموعہ مٹی ہی ہوگا۔ جیسا کہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ ہم ایسے رہے یا کہ ویسے رہے وہاں دیکھنا ہے کہ کیسے رہے حیاتِ دو روزہ کا کیا عیش و غم مسافر رہے جیسے تیسے رہے احقر کو اپنا ایک پرانا شعر یاد آیا ؎