کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
احقر عرض کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس شخص کی اس ادائے بندگی پر فضل فرمادیا اور صالحین کی اس بستی کو حکم دے دیا کہ تَقَرَّبِیْ اے زمین! تو قریب ہوجا۔ اور معصیت کی بستی کو حکم فرمایا تَبَاعَدِیْیعنی تو دور ہوجا۔ صالحین کی بستی پر کیوں کہ اہلِ تقرب تھے اس کو خطاب بھی تقرب سے کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ کے اس فضل پر بے ساختہ حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب پرتاب گڑھی دامت برکاتہم کا شعر یاد آگیا ؎ حسن کا انتظام ہوتا ہے عشق کا یوں ہی نام ہوتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی رحمت کا سب انتظام ہوتا ہے اور بندوں کے اعمال اس کے لیے محض بہانہ ہوتے ہیں۔ ۳) علامہ ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے مشروعیتِ توبہ جمیع کبائر سے ثابت ہوتی ہے۔ ۴) اور اشکال مسئلہ حقوق العباد کا حل یہ تحریر فرماتے ہیں:إِنَّ اللہَ تَعَالٰی إِذَا قَبِلَ تَوْبَۃَ الْقَاتِلِ یَکْفُلُ بِرِضَا خَصَمِہٖ یعنی اللہ تعالیٰ نے جب قاتل کی توبہ قبول فرمالی تو اس کی طرف سے اہلِ حقوق کو راضی کردینے کے لیے کفیل ہوجائیں گے۔ ۵) اور اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ملائکۂ رحمت اور ملائکۂ عذاب کا کبھی اللہ تعالیٰ کے بندوں کے بارے میں اختلاف ہوجاتا ہے۔ اس بات میں کہ اس کو مطیع لکھیں یا عاصیحَتّٰی یَقْضِیَ اللہُ بَیْنَہُمْیہاں تک کہ اللہ تعالیٰ فیصلہ فرماتے ہیں۔ ۶) اور اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جس زمین پر انسان کسی معصیت میں مبتلا ہوجائے، اس زمین سے ہجرت مستحب اور افضل ہے، دو وجہ سے: (۱)اس زمین پر اس گناہ کی پھر اس کو یاد آئے گی اور فتنہ میں مبتلا ہوجائے گا(۲) اس وجہ سے کہ گناہوں کے آثار و نشانات اس کو دوبارہ اس گناہ پر اعانت کریں گے اور برانگیختہ کریں گے۔ چناں چہ بعض روایات میں ہے کہوَلَا تَرْجِعْ إِلٰی أَرْضِکَ فَإِنَّہَا أَرْضُ سُوْءٍ، فَفِیْہِ إِشَارَۃٌ إِلٰی أَنَّ التَّائِبَ یَنْبَغِیْ لَہٗ مُفَارَقَۃُ الْأَحْوَالِ الَّتِیْ