کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
اُس (معصیت کی) سرزمین کو حکم دیا کہ تو دور ہوجا۔ پس اللہ تعالیٰ نے (فرشتوں سے) فرمایا کہ تم ان دونوں زمینوں کی پیمایش کرو۔ پس پایا گیا وہ شخص صالحین کی بستی سے ایک بالشت زیادہ قریب۔ پس اس کو بخش دیا گیا۔ (متفق علیہ) ۱) ملّا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ وہ راہب عابد، زاہد، خلق سے کنارہ کش، خالق کی یاد میں مشغول تھا اور اس پر خوفِ الٰہی کا غلبہ تھا۔ ۲) راہب نے جو توبہ نہ قبول ہونے کا کہا اس کی تین وجوہات ہوسکتی ہیں: الف) إِمَّا جَہْلًا مِنْہُ بِعِلْمِ التَّوْبَۃِیا تو توبہ کے بارے میں صحیح علم سے بے خبر تھا۔ ب) وَإِمَّا لِغَلَبَۃِ الْخَشْیَۃِ عَلَیْہِ یا خشیت کے غلبہ کی وجہ سے۔ ج) وَإِمَّا لِتَصَوُّرِعَدْمِ إِمْکَانِ إِرْضَاءِ خُصُوْمِہٖ عَنْہُیعنی اس تصور کے سبب کہ مظلوم فریق کے راضی کرنے کا امکان نہ رہا تھا۔ اور اس نے راہب کو اس بنا پر قتل کیا کہ جب میری توبہ قبول ہی نہیں ہے تو ننانوے کے بجائے سو پورا کردو۔؎ ۳) ایک اشکال اور اس کا جواب:علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ اس شخص کی مغفرت پر ایک اشکال اصولِ شرع کے مطابق وارد ہوتا ہے اور وہ یہ کہ فَإِنَّ حُقُوْقَ بَنِیْ اٰدَمَ لَاتَسْقُطُ بِالتَّوْبَۃِ بَلْ تَوْبَتُہَا أَدَاءُہَا إِلٰی مُسْتَحِقِّیْہَا کیوں کہ حقوق العباد صرف توبہ سے معاف نہیں ہوتے جب تک کہ اہلِ حقوق کو راضی نہ کیا جاوے۔ اس کا جواب یہ ہے کہإِنَّ اللہَ تَعَالٰی إِذَا رَضِیَ عَنْ عَبْدِہٖ وَ قَبِلَ تَوْبَتَہٗ اَرْضٰی عَنْہُ خُصُوْمَہٗ وَرَدَّ مَظَالِمَہٗ۔جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے خوش ہوجاتے ہیں اور اس کی توبہ قبول فرماتے ہیں تو اس کی جانب سے اہلِ حقوق کو راضی کردیں گے اور اہلِ حقوق کے حقوق کو اس بندے کی طرف سے خود ادا فرمادیں گے۔ ۴) فضل بصورتِ عدل:گناہ کی بستی کو دور کرنے کا اور صالحین کی بستی کو قریب کرنے کا جو حکم فرمایا فَہٰذَا فَضْلٌ فِیْ صُوْرَۃِ عَدْلٍ پس یہ فضل ہے عدل کی صورت میں صالحین کی بستی سے صرف ایک بالشت زیادہ قریب ہونے پر۔ ------------------------------