کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
ہیں قیامت کے دن ان کے لیے نور کے منبر ہوں گے اور ان کی اس شان پر انبیاء علیہم السلام اور شہدائے کرام رشک کریں گے۔ حالِ راوی:حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ انصاری، خزرجی ہیں۔ کنیت ابوعبداللہ تھی۔ عقبۂ ثانیہ کے ستّر شرکاء میں سے ایک یہ بھی ہیں۔ بدری ہیں، یمن کے قاضی تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم نے بھی ان سے روایت فرمائی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو شام کا حاکم بنایا تھا۔ شرح حدیث:یہ حدیثِ قدسی ہے جس کی تعریف مرقاۃ، جلد۱، صفحہ۹۵ پر مرقوم ہے: اَلْحَدِیْثُ الْقُدْسِیُّ ہُوَ الْکَلَامُ الَّذِیْ یُبَیِّنُہُ النَّبِیُّ بِلَفْظِہٖ وَیُنْسِبُہٗ إِلٰی رَبِّہٖ؎ حدیثِ قدسی وہ کلام ہے جس کو نبی اپنے الفاظ میں ادا کرتا ہے اور نسبت اس کی اپنے رب کی طرف کرتا ہے۔ ملّا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث جامع صغیر نے امام احمد کی روایت سے اور طبرانی اور حاکم اور امام بیہقی نے حضرت معاذ کی روایت سے نقل کی ہے۔ لِلْمُتَحَابِّیْنَ فِیَّ سے مراد لِاَجْلِیْ ہے۔ یعنی جو میری وجہ سے آپس میں محبت رکھتے ہیں۔ احقر مؤلف عرض کرتا ہے کہ لفظ متحابین کو مقدم فرمانے کی حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ محبت کا محل قلب ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے لیے محبت کرنا گویا قلوب کا اجتماع ہے۔ اس کے بعدمُتَجَالِسِیْنَ فِیَّ فرماکر یہ بتادیا کہ مجالست کا حاصل اجتماعِ قوالب ہے۔ یعنی احباب کا جمع ہونا ہے، اور یہ نافع اس وقت ہی ہوتا ہے جب قلوب بھی جمع ہوں ورنہ اگر دلوں میں محبت نہ ہو اور اجسام جمع ہوں تو یہ اجتماع بدون قلوب محض بے روح اور غیرمفید ہوگا۔ شاعر کہتا ہے ؎ آدمی آدمی سے ملتا ہے دل مگر کم کسی سے ملتا ہے اسی سبب سے مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ؎ ------------------------------