کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
اللہِ تَعَالٰی (والثانی) اَلْفِکْرُ فِی الدَّلَائِلِ الدَّالَّۃِ عَلَی التَّکَالِیْفِ وَالْوَعْدِ وَالْوَعِیْدِ وَفِی الصِّفَاتِ الْاِلٰہِیَّۃِ وَالْأَسْرَارِ الرَّبَّانِیَّۃِ (والثالث) اِسْتِغْرَاقُ الْجَوَارِحِ فِی الْأَعْمَالِ الْمَأْمُوْرِ بِہَا خَالِیَۃً عَنِ الْأَعْمَالِ الْمَنْہِیِّ عَنْہَا وَلِکَوْنِ الصَّلٰوۃِ مُشْتَمِلَۃٌ عَلٰی ہٰذِہِ الثَّلَا ثَۃِ سَمَّاہَا اللہُ تَعَالٰی ذِکْرًا فِیْ قَوْلِہٖ فَاسْعَوْا إِلٰی ذِکْرِ اللہِ، وَقَالَ: أَہْلُ الْحَقِیْقَۃِ حَقِیْقَۃُ ذِکْرِ اللہِ تَعَالٰی أَنْ یَّنْسٰی کُلَّ شَیْءٍ سِوَاہُ؎ تم لوگ مجھ کو یاد کرو طاعت سے یعنی قلب سے اور قالب سے بھی، پس ذکر عام ہے خواہ زبان سے ہو یا قلب سے ہو یا جوارح سے ہو۔(فالاوّل) پس اوّل ذکر لسانی ہے جو شامل ہے تسبیح و تحمید و قرأتِ کلام اللہ وغیرہ پر۔(والثانی) اور ثانی اللہ کی مخلوق میں غور و فکر کرنا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کی صفات کی معرفت اور ان کی ربوبیت کے اسرار منکشف ہوں (والثالث) اور تیسرا یہ کہ اپنے اعضا سے اللہ تعالیٰ کے احکام بجالائے اور ان کو نافرمانی سے محفوظ رکھے۔ پس اللہ کا ذکر ان تینوں قسموں پر شامل ہے۔ اہلِ حقیقت نے بیان فرمایا ہے کہ ذکر کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی محبت غالب ہوجائے اور ماسوی اللہ کی محبت مغلوب ہوکر کالعدم ہوجائے۔ خواجہ صاحب فرماتے ہیں ؎ جب مہرنمایاں ہوا سب چھپ گئے تارے وہ ہم کو بھری بزم میں تنہا نظر آئے اسی حقیقت کا نام تبتُّلِ شرعی ہے۔ جیسا کہ بیان القرآن میں تحریر ہے کہ تبتُّل نام ہے تعلق مع اللہ کا تعلق ماسوی اللہ پر غالب ہوجانا نہ کہ ترکِ تعلقاتِ ضروریہ کا۔ جیسا کہ جو گیانِ ہند اور جہلائے صوفیا نے سمجھا ہے۔ نوٹ: اسی حقیقت کا نام وحدت الوجود ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد غالب رہے اور ماسوی اللہ مغلوب رہے اور کالمعدوم رہے نہ کہ عدمِ حقیقی مراد ہے۔ جیسا کہ گمان اہلِ جہل کا ہے۔ ------------------------------