کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
صَرف و نحو کے جاننے والے وغیرہ۔ پس خشیت کا مدار اللہ تعالیٰ کی معرفت کے علم پر ہے، جو جتنا عارف باللہ ہوتا ہے اتنا ہی اللہ سے ڈرنے والا ہوتا ہے۔جیسا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایااَنَا اَعْلَمُکُمْ بِاللہِ وَاَخْشَاکُمْ بِہٖیعنی اے لوگو! میں تم میں سب سے زیادہ اللہ کا علم رکھتا ہوں اور تم میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اِنَّ اللہَ عَزِیْزٌ غَفُوْرٌ ، ہٰذِہِ الْاٰیَۃُ تَعْلِیْلٌ لِّوُجُوْبِ الْخَشْیَۃِ یہ آیت وجوبِ خشیت کی علت بیان کرتی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ زبردست طاقت والے ہیں تو ان کو انتقام پربھی کمالِ قدرت حاصل ہے اور کامل القدرت سے ڈرنا عین مقتضائے عقل ہے اور مغفرت و رحمت کا تعلق نہیں قائم ہوتا ہے مگر اس ذات سے جو سزا پر قادر ہو۔ پس عزیز اور غفور کا ربط واضح ہوگیا۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ آیت حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ اور خشیت کے آثار ہر وقت ان کے چہرے پہ نمایاں رہتے تھے۔؎ حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں وَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ کی تفسیر میںیَرْفَعِ اللہُ الْمُؤْمِنَ الْعَالِمَ عَلَی الْمُؤْمِنِ غَیْرِ الْعَالِمِ ، وَرَفْعَۃُ الدَّرَجَاتِ تَدُلُّ عَلَی الْفَضْلِیعنی اللہ تعالیٰ مؤمن عالم کو فضیلت عطا فرماتے ہیں مؤمن غیرعالم پردرجات کی رِفعت دلالت کرتی ہے علم کی فضیلت پر۔ وَالْمُرَادُ بِالْعِلْمِ الْعِلْمُ الشَّرْعِیُّاور یہاں علم سے مراد علمِ شرعی ہے۔ پھر اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا واقعہ بیان فرمایا جب ان کے زمانہ میں ایک غلام کو مکہ شریف کا گورنر بنایا گیا کیوں کہ وہ کتاب اللہ کا عالم اور قاری تھا۔؎ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس آیت سے علم کی فضیلت ثابت ہوتی ہے اور علم کی زیادتی کی دعا کی مطلوبیت ------------------------------