کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
کَرَبَہٗ أَمْرٌ یَّقُوْلُ یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ أَسْتَغِیْثُ؎ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے بغیر ایک لمحہ بھی انسان نفس کے شر سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: اِنَّ النَّفۡسَ لَاَمَّارَۃٌۢ بِالسُّوۡٓءِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیۡ؎ ترجمہ و تفسیر از بیان القرآن:نفس تو ہر ایک کا بُری بات بتلاتا ہے بجز اس نفس کے جس پر میرا رب رحم کرے۔ جیسا کہ انبیاء کے نفوسِ مطمئنہ ہوتے ہیں جن میں حضرت یوسف علیہ السلام کا نفس بھی داخل ہے۔ خلاصہ یہ کہ میری عصمت میرا ذاتی کمال نہیں بلکہ رحمت و عنایتِ الٰہیہ کا اثر ہے۔ اَمَّارَۃٌ: کَثِیْرَۃُ الْأَمْرِ (لِلْمُبَالَغَۃِ) یہاں الف لام عَلَی السُّوْءِ لِلْجِنْسِ ہے۔ پس قیامت تک کے معاصی کے تمام انواعِ موجودہ اور مستقبلہ اس لفظ میں شامل ہیں کیوں کہ جنس انواع مختلف الحقائق پر مشتمل ہوتی ہے۔ پس وہ نئے نئے ایجادات و آلاتِ معاصی بھی اس سوء میں شامل ہوگئے جو قیامت تک ایجاد کیے جائیں گے۔ روح المعانی میں ہے کہ مارحم میںمامصدریہ، ظرفیہ، زمانیہ ہے۔ جس کی تفسیر یہ ہے کہ إِلَّا فِیْ وَقْتِ رَحْمَۃِ رَبِّیْ وَعِصْمَتِہٖیعنی نفس ہر وقت بُرائی کی طرف راہ دکھاتا ہے، مگر جب تک بندہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت اور رحمت کے سائے میں رہتا ہے نفس اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ نے کیا خوب فرمایا ہے ؎ گر ہزاراں دام باشد بر قدم چوں تو بامائی نباشد ہیچ غم ترجمہ:اگر ہزاروں گناہ کے جال ہر قدم پر ہوں، مگر اے خدا! آپ کی عنایت کے ہوتے ہوئے کوئی غم نہیں۔ رَحِمَ جو ماضی تھا ما مصدریہ نے اسے مصدر بنادیا۔ پس علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ کی ------------------------------