کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
کودنے لگتا ہے۔ یہ قدر نعمت کا لطیف عنوان ہے۔؎ لفظ ہبہ سے کیوں تعبیر فرمایا؟ اس میں کیا حکمت ہے؟ بات یہ ہے کہ حسنِ خاتمہ اور استقامت علی الدین دونوں نعمتیں مترادف ہیں اور لازم و ملزوم ہیں۔ پس یہ دو عظیم الشان نعمتیں جن کی برکت سے جہنم سے نجات اور دائمی جنت عطا ہوجاوے یہ ہماری محدود زندگی کے ریاضات کا صلہ ہر گز نہیں ہوسکتی تھیں، اس لیے حق تعالیٰ شانہٗ نے اپنے بندوں کو اس اہم حقیقت سے مطلع فرمادیا کہ خبردار! اپنے کسی عمل کے معاوضہ کا تصور بھی نہ کرنا۔ یہ استقامت جس کو حسنِ خاتمہ لازم ہے یہ وہ عظیم اور غیرمحدود دولت ہے جو دخولِ جنت کا سبب ہے جس کا تم کوئی معاوضہ ادا نہیں کرسکتے کیوں کہ مثلاً اسّی برس کے نماز روزوں سے اسّی برس کی جنت ملنے کا قانون اور ضابطہ سے جواز ہوسکتا تھا، لیکن ہمیشہ کے لیے غیرفانی حیات کے ساتھ جنت کا عطا ہونا اور محدود عمل پر غیرمحدود اجر و انعام صرف حقِ رابطہ اور عطائے حق ہے۔ پس لفظ ہبہ سے درخواست کرو کیوں کہ ہبہ بدون معاوضہ ہوتا ہے اور ہبہ میں واہب اپنے غیرمتناہی کرم سے جو چاہے دےدے۔ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ اسی نکتہ کو بیان فرماتے ہیں:وَفِی اخْتِیَارِ صِیْغَۃِ الْہِبَۃِ إِیْمَاءٌ أَنَّ ہٰذِہِ الرَّحْمَۃَ أَیْ ذَالِکَ التَّوْفِیْقَ لِلْاِسْتِقَامَۃِ عَلَی الْحَقِّ تَفَضُّلٌ مَحْضٌ بِدُوْنِ شَائِبَۃِ وُجُوْبٍ عَلَیْہِ تَعَالٰی شَانُہٗ؎ اور صیغہ ہبہ سے تعبیر میں اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمادیا کہ اس رحمت سے مراد وہ توفیقِ حق ہے جس کی برکت سے بندہ دین پر قائم رہتا ہے اور جو کہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور ان کا کرم ہے جس کو عطا فرمائیں۔ اِنَّکَ اَنْتَ الْوَہَّابُیہ معرضِ تعلیل میں ہے کہ تم کو ہم سے ہبہ مانگنے کا کیا حق ہے اور کیوں حق ہے کیوں کہ ہم بہت بڑے داتا اور بخشش کرنے والے ہیں۔ قَالَ الْعَلَّامَۃُ ------------------------------