کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
ان رسولوں نے فرمایا: قَالُوۡا طَآئِرُکُمۡ مَّعَکُمۡ ؕ اَئِنۡ ذُکِّرۡتُمۡ ؕ بَلۡ اَنۡتُمۡ قَوۡمٌ مُّسۡرِفُوۡنَ ؎ تمہاری نحوست تو تمہارے ساتھ ہی لگی ہوئی ہے،کیا تم اس کو نحوست سمجھتے ہو کہ تم کو نصیحت کی جاوے، بلکہ تم حد سے گزرنے والے ہو۔ حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ بحوالہ روح المعانی بیان القرآن میں تحریر فرماتے ہیں کہوَفِی الرُّوْحِ قَالَ مُقَاتِلٌ: إِنَّہٗ حُبِسَ عَنْہُمُ الْمَطَرُ ان نالائقوں پر بارش روک دی گئی۔ وَقَالَ اٰخَرُ: أَسْرَعَ فِیْہِمُ الْجُذَامُ سب کے سب کوڑھی ہوگئے، اسی وقت جس وقت کہ ان گستاخوں نے رسولوں کی تکذیب کی۔وَہٰذَا عَادَۃُ اللہِ إِذَا أَنْکَرَ النَّاسُ عَلٰی أَوْلِیَاءِ ہٖ اور یہی عادت اللہ ہے یعنی دستور حق تعالیٰ کا ہے کہ جب اولیاء اللہ کے ساتھ گستاخی کی جاتی ہے تو اسی طرح کا وبال ان پر آتا ہے۔ قَالُوْا طَآئِرُکُمْ روح المعانی میں ہے کہ اس کے اندر اشارہ ہے کہ ان کی استعداد ہی فاسد تھی۔ وَ مَا لِیَ لَاۤ اَعۡبُدُ الَّذِیۡ فَطَرَنِیۡ میں اپنے اوپر الزام رکھ کر بیان کرنا ارشاد میں تلطف ہے اور مصلحین کا یہی طرز ہے۔ فَلَا یَحْزُنْکَ قَوْلُہُمْمیں اشارہ ہے کہ مخالفین کے اقوال کی پروا نہ کرنی چاہیے۔ حق تعالیٰ شانہٗ خود آگاہ ہیں، مناسب انتقام لے لیں گے۔ اِنَّمَا تُنْذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّکْرَمیں دلالت ہے کہ تربیت پر جو فائدہ مرتب ہوتا ہے وہ طالب کی استعداد کا ظہور ہوتا ہے نہ کہ مربّی ظاہری کی عطا (لیکن اس استعداد کے ظہور کا چوں کہ مربّی سبب ہوتا ہے اس لیے اس کے حقوق کا اہتمام سلوک کی روح ہے)۔؎ ------------------------------