کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اِمْتَحَنَ بِمَعْنٰی أَخْلَصَ ہے۔ اہلِ عرب جب سونے کو آگ میں ڈال کر اس کا میل کچیل صاف کرتے ہیں تو اس وقت یہ محاورہ بولتے ہیںیُمْتَحَنُ الذَّہَبُ بِالنَّارِ لِیُخْلَصَ اِبْرِیْزُہٗ عَنْ خُبْثِہٖ وَیُنْقٰی؎ اس سے معلوم ہوا کہ اہل اللہ اور مقبولینِ بارگاہ کی محبت اور ان کا ادب اس قدر محبوب عمل ہے کہ اس کی برکت سے جلد بندہ اللہ تعالیٰ کا محبوب ہوجاتا ہے، اور جس کے قلب کو اللہ تعالیٰ اپنے لیے خالص فرمالیں اس کو پھر کون خراب کرسکتا ہے اور کون غیراللہ اپنا بناسکتا ہے؟ جس کو اللہ رکھے اس کو کون چکھے اور جس کو اللہ نہ رکھے اس کو ساری دنیا چکھے۔ دنیا میں اگر بادشاہ کسی چیز کو اپنے لیے خاص طور پر پسند کرلیتا ہے، خواہ وہ بلی کتا جیسی حقیر چیز ہو تو بھی ملک میں اس کو کوئی رعایا ہاتھ نہیں لگاسکتی۔ پھر حق تعالیٰ جو چیز اپنے لیے منتخب فرمالیں، خالص فرمالیں، اس کو کون نقصان پہنچاسکتا ہے؟ ؎ دونوں جانب سے اشارے ہوچکے ہم تمہارے تم ہمارے ہوچکے علماء نے تصریح کی ہے کہ جو حضرات دین کی بزرگی رکھتے ہیں، ان کے ساتھ بھی یہی ادب ہے، گو سوئے ادب کا وبال اس درجہ کا نہ ہوگا، لیکن تأذی بلاضرورت میں حرمت ضرور ہے۔ فرماتے ہیں کہحضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پاس قرآنِ پاک کی تعلیم کے لیے جایا کرتے تھے اور استاد کا دروازہ نہ کھٹکھٹاتے تھے، یہاں تک کہ آپ خود سے نکلتے۔ ایک دن فرمایا کہ اے عبداللہ بن عباس! دروازہ کھٹکھٹادیا کرو تاکہ آپ انتظار کی کلفت نہ اُٹھائیں، ہم کو یہ انتظار آپ کا بہت شاق ہوتا ہے۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ------------------------------