معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
افکار اور ان کے وہ ہاتھ اور ان کی تمام ظاہری اور باطنی قوتیں بھی مخلوق ہیں جن کے ذریعے یہ نت نئی مصنوعات تیار کرتے رہتے ہیں، نیز جن اجزا کی ترتیب اور ترکیب سے نئی نئی چیزیں بنتی ہیں یہ اجزا بھی مخلوق ہیں اور اسی مجموعۂ مخلوقات کا نام سائنس رکھا ہے۔ تو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی ہے کہ چند عاجز اور محتاج مخلوقات کا مجموعہ سائنس کے نام سے خدا بن بیٹھے اور اس خدا کے ماننے والے بندے بھی نکل آئیں،یہ تو ایسا ہی ہوا کہ ایک اندھے نے خدائی کا دعویٰ کیا تو اس کے بھی ساٹھ عدد ماننے والے بندے نکل آئے۔ کسی نے ایک دن پوچھا کہ اگر آپ خدا ہیں تو آپ کی آنکھیں کیوں درست نہیں ہیں؟ تو اس اندھے نے جواب دیا کہ بندوں کی آزمایش کے لیے یہ آنکھیں عیب دار ہیں، تاکہ بندوں کے اخلاص کا پتا چل جائے کہ کون اس عیب کے باوجود مجھ پر ایمان لاتا ہے اور کون اس عیب سے کفر اختیار کرتا ہے۔ سائنس کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ چند اجزا کی ترتیب اور ترکیب سے کوئی نئی صنعت بنالی جائے،لیکن یہ اجزا اور ان اجزا میں خواص کہاں سے آئے ہیں؟ حضرت عارف رومی فرماتے ہیں ؎ خاک و باد و آب و آتش بندہ اند بامن و تومردہ با حق زندہ اند مولانا فرماتے ہیں:جن عناصر سے تم کام لیتے ہویہ مٹی، ہوا، پانی، آگ سب خدا وند تعالیٰ کی مخلوقات ہیں اور ان کا تعلق اپنے خالق سے تعبّدی ہے،یعنی شان غلامی کا ہے۔ ہماری نگاہ میں اگرچہ یہ بے جان اور بے حس نظر آتے ہیں لیکن حق تعالیٰ کے ساتھ ان کی اطاعت کا تعلق زندوں ہی جیسا ہے۔ گر تو خوا ہی آتش آبِ خوش شود ورنخواہی آب ہم آتش شود گر تو خوا ہی عینِ غم شادی شود عینِ بندِ پائے آزادی شود (عارف رومی رحمۃ اللہ علیہ)