معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
مولانا فرماتے ہیں کہ عارفین دونوں جہاں کے لوگوں سے زیادہ کاہل ہیں۔مفہومِ کاہلیٔ عارفین ازکسبِ دنیا لیکن اس کاہلی سے مراد تفویض و توکّل اور اپنے ارادوں کو مرضیاتِ الٰہیہ میں فنا کردینا ہے، جس کی ظاہری صورت عوام کے نزدیک کاہلی سمجھی جاتی ہے۔ سو ایک عالَم میں تو کوئی کاہل ہی نہیں ہے، یعنی عالمِ ملائکہ میں کاہلی کا مطلق وجود نہیں ہے، کیوں کہ حق تعالیٰ شانہ‘نے فرشتوں کی تعریف میںیُسَبِّحُوۡنَ الَّیۡلَ وَالنَّہَارَ لَا یَفۡتُرُوۡنَ؎ارشاد فرمایا ہے، (ترجمہ) ’’فرشتے شب و روز تسبیح کرتے ہیں، کسی وقت موقوف نہیں کرتے۔‘‘اور اُوپر وَ لَا یَسۡتَحۡسِرُوۡنَ؎بھی فرمایا ہے، یعنی ’’ہماری تسبیح سے تھکتے نہیں ہیں۔‘‘ دنیا میں البتہ کاہل بھی ہیں، لیکن اہلِ دنیا کی کاہلی نفس کی شرارت اورآرام طلبی کے سبب سے ہوتی ہے اور عارفین کی کاہلی اسبابِ دنیویہ میں انہماک نہ ہونے سے ہوتی ہے جس کا سبب غلبۂ تفویض اور توکّل و فنائے ارادہ ہوتا ہے۔ پھر مولانا اس تفویض اور فنائے ارادہ کی علّت بیان فرماتے ہیں ؎ زانکہ بے شد یار خرمن می برند یعنی ایسا اس لیے ہے کہ بدون اختیارِ اسباب کے ان کے مقاصد پورے ہوجاتے ہیں، آگے فرماتے ہیں ؎ کاہلی را کردہ اند ایشاں سند کارِ ایشاں را چوں یزداں می کند مولانا فرماتے ہیں کہ انہوں نے تفویض و توکّل کو اپنا تکیہ گاہ اس وجہ سے بنا رکھا ہے کہ ان کا کام حق تعالیٰ کرتے ہیں ؎ ------------------------------