معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
کے زمانے میں صرف اللہ اللہ کا ذکر جو فی زمانہ مشایخ مریدوں کو تعلیم کرتے ہیں ثابت نہیں۔ میں نے ان کو وہی جواب دیاجو ہمارے حضرت مرشدِ پاک رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے، یعنی حضرات صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو چوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبتِ مبارکہ کے فیض سے نسبت عطا ہوجاتی تھی، ایمان کے ساتھ جو شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لیتا تھا وہ اُسی وقت صاحبِ نسبت ہوجاتا تھا، بعد کو رسوخ ِ نسبت کے لیے علمائے ربّانیّین نے ذکرِ بسیط تجویز کیا، کیوں کہ ذکرِ مفرد بہ نسبت ذکرِ مرکب کے جلد اوقع فی النفس اور راسخ ہوتا ہے،اور کثرتِ ذکرُ اللہ کا ثبوت قرآن میں موجود ہے۔ حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:وَاذۡکُرُوااللہَ ذِکۡرًا کَثِیۡرًا اور اپنے اللہ کو خوب کثرت سے یاد کیا کرو۔اور تکرارِ مفرد کا ثبوت حضرات صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے زمانے میں بھی ثابت ہے، مثلاً سورۂ انشقاق کسی کو یاد کرنا ہوتی تو اِذَاالسَّمَآءُن، اِذَاالسَّمَآءُن بار بار رٹتے تھے، حالاں کہ اِذَاالسَّمَآءُن کے کیا معنیٰ ہیں، تو معلوم ہوا کہ اس طور پر رٹنا یعنی تکرار کلمۂ مفرد کا رسوخ کے لیے حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کے زمانے میں بھی ثابت تھا۔حضرت تھانوی کا ارشاد حضرت رحمۃ اللہ علیہ کو حق تعالیٰ نے بڑا علم عطا کیا تھا۔ ایک بار ارشاد فرمانے لگے کہ اگر ایک ہزار دنیا کے عقلا کسی مسئلے پر اعتراض لے کر ایک طرف بیٹھے ہوں اور مجھے پانچ منٹ کا موقع دیا جائے میں ان شاء اللہ پانچ منٹ میں سب کو لاجواب کردوں گا، حالاں کہ میں ایک ادنیٰ طالب علم ہوں، علماء کی شان تو بہت بڑی ہے۔عارفین کا اپنی نیت کی تحقیق کرنا عارفین ہر کام میں اپنی نیت کی درستی کرتے ہیں۔ قلب کی گہرائی تک اُن کی نگاہ پہنچتی ہے، دل کو خوب ٹٹولتے ہیں کہ یہ کام جو میں کررہا ہوں یہ اللہ کی خوشنودی کے لیے کررہا ہوں یا کسی اور مقصد کے لیے؟ کیوں کہ حق تعالیٰ کی معیتِ خاصّہ سے اُن کو ہر