معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
وقت انہوں نے ایسا کیا، پس یقیناً اسی میں حکمت ہے، اس لیے میں بھی اتباع اس حال کا کرکے بتکلف کلام کرنا نہیں چاہتا اور مثنوی کو ختم کیے دیتا ہوں۔(کلیدِ مثنوی، دفترِ ششم) حضرت مرشدی رحمۃ اللہ علیہ نے اس مقام پر فائدے کے تحت ایک تنبیہ تحریر فرمائی ہے، وہ یہ کہ عارف کو بحکمِ وقت کلام کرنا چاہیے، جب طبیعت اپنی اور سامعین کی حاضر ہو اور علوم و معارف کی آمد ہو اور اس میں اعتدال ہو کہ نہ بیان میں تکلف ہو اور نہ اتنا غلبہ ہو کہ ضبط سے خارج ہونے کا اندیشہ ہو، اس وقت افادۂ خلق میں مشغول ہو،اور اسی وقت حضرت رحمۃ اللہ علیہ پر یہ شعر وارد ہوا ؎ گر بگوید بگو بگوئی و بجو ش ور بگوید مگو مگوئی و خموشمولانا رومی کی پیشین گوئی مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ نے پیشین گوئی فرمائی تھی کہ میرے بعد ایک نور جان آئے گا جو اس مثنوی کا تکملہ کرے گا، جو ان دو شعروں میں مذکور ہے ؎ ہست باقی شرحِ ایں لیکن دروں بستہ شد دیگر نمی آید بروں باقی ایں گفتہ آید بے زباں درد دلِ آں کَس کہ دارد نورِ جاں چناں چہ اس نورِ جاں کا مصداق حق تعالیٰ نے مفتی الٰہی بخش صاحب کاندھلوی قدس سرّہٗ کو بنایا اور انہوں نے مثنوی کی تکمیل فرمائی،یعنی مفتی الٰہی بخش صاحب کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی روح پر مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ کی روح کا فیض مشاہدہ کیا۔چناں چہ فرماتے ہیں ؎ آمدی درمن مرا بردی تمام اے تو شیرِ حق مرا خوردی تمام