معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
محبت سے دینِ مستحکم نصیب ہوتا ہے محبت سے جس قدر مضبوط دین ہوتا ہے اس قدر دلائل سے میسر نہیں ہوتا ہے، بے محبت کی پرہیز گاری ذرا سی دیر میں ٹوٹ جاتی ہے اور محبت والا جان دے دیتا ہے۔ ہمارے خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ میں ہوں اور حشر تک اس دَر کی جبیں سائی ہے سرِ زاہد نہیں یہ سَر سرِ سودائی ہے لاکھ جھڑکو اب کہاں پھرتا ہے دل ہوگئی اب تو محبت ہوگئیخواجہ صاحب کا ایک واقعہ ایک بار ہمارے مرشدِ پاک حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ پر عتاب فرمایا اور حکم فرمایا کہ مجلس میں شرکت کی اجازت نہیں ہے۔ حضرت خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ بڑے عاشقِ زار تھے، ایک شعر میں اپنی محبت کا اظہار فرمایا ؎ اُدھر وہ دَر نہ کھولیں گے اِدھر میں دَر نہ چھوڑوں گا حکومت اپنی اپنی ہے کہیں ان کی کہیں میری محبت والا کسی حال میں ہمت ہار کے محبوب کی طلب کو ترک نہیں کرتا ہے ؎ دست از طلب ندارم تا کامِ من برآید یا تن رسد بجاناں یا جاں زتن بر آید میں محبوب کی طلب سے باز نہ رہوں گایہاں تک کہ میں مقصود تک نہ پہنچ جاؤں،یا تو میرا تن محبوب تک پہنچ جائے یا تو جان ہی تن سے جدا ہوجائے۔ محبت کی یہی شان ہوتی ہے کہ محبوب کی ہر ادا سے خوش اور راضی رہتا ہے ؎