معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
اے میرے پروردگار! جو نعمت بھی قلیل یا کثیر آپ مجھ کو بھیج دیں میں اس کا سخت حاجت مند ہوں۔ حالاں کہ حضرت موسیٰ علیہ السّلام چاہتے تو کچھ اجرت ٹھہرالیتے، مگر باوجود بھوک کی حاجت کے بدون اجرت کام کردیا،اور یہ معاملہ حضرت خضر علیہ السّلام نے کیا تو اس پر اعتراض فرمایا۔یہ قرآنی لطائف ہیں جو حق تعالیٰ شانٗہ اپنے مقبول بندوں کو القاء فرمادیتے ہیں۔حضرت موسیٰ اور حضرت خضرکے واقعے سےعوام کو ایک دھوکا اور اس پر تنبیہ حضرت موسیٰ و خضر علیہما السلام کے اس قصے سے بعض لوگوں کو یہ دھوکا لگا کہ علمِ باطن جو حضرت خضرعلیہ السّلام کو حاصل تھا،علمِ شریعت سے جو حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو حاصل تھا افضل ہے، ورنہ حضرت موسیٰ علیہ السّلام حضرت خضر علیہ السّلام کی شاگردی کیوں اختیار فرماتے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السّلام اولوالعزم پیغمبر ہیں اور انبیائے اولوالعزم کے برابر دوسرے کو یہ علم نہیں ہوتا، لیکن قصّہ یہ ہوا کہ ایک بار حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے بنی اسرائیل میں وعظ فرمایا تو کسی نے پوچھا کہ اس وقت آدمیوں میں سب سے بڑا عالم کون شخص ہے؟ آپ نے فرمایا کہ میں۔مطلب یہ تھا کہ ان علوم میں کہ جن کو قرب الی اللہ کی تحصیل میں دخل ہے، میرے برابر کوئی نہیں، لیکن چوں کہ ظاہراً لفظ مطلق تھا اس لیے اللہ تعالیٰ کو منظور ہوا کہ آپ کو احتیاط فی الکلام کی تعلیم دی جائے، اس لیے حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ ہمارا بندہ مجمع البحرین میں تم سے بھی زیادہ علم رکھتا ہے۔ مطلب یہ تھا کہ بعض علوم میں وہ زیادہ ہیں،گو ان علوم کو قربِ الٰہی میں دخل نہ ہو، پس یہاں حضرت خضر علیہ السّلام کی فضیلتِ جزوی حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی فضیلتِ کلّی کے منافی نہیں۔