معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
وسکنات اور جذبات و کیفیات کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نقشِ قدم کے تابع کردینے ہی کا نام سچّی غلامی اور سچّی بندگی ہے، اور یہی مقبول بندگی ہے، اتباعِ سنت کے ساتھ اگر کشف و کرامت، وجد اور استغراق اور احوال بھی کسی کو عطا ہوجاویں تو وہ بھی اتباعِ سنت کی برکت سے محمود ہیں مقصود نہیں، اور اگر کوئی کسی ایک عمل میں بھی سنت کے خلاف اپنی ایجاد کردہ اختراعی راہ و رسم کا پابند اور غلام ہے تووہ باوجود صد کشف و کرامت اور رقص و استغراق کے نامقبول ہے، کیوں کہ حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: کہ اے ہمارے رسول!آپ لوگوں سے فرمادیں کہ اگر تم لوگ اللہ تعالیٰ کے مقبول اور محبوب بننا چاہتے ہو فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللہُ ’’تو تم لوگ میری اتباع کرو، میری اتباع کے صدقے میں حق تعالیٰ تمہیں محبوب بنالیں گے۔‘‘ کیوں کہ میری شانِ عبدیت اور میرا طرزِ بندگی حق تعالیٰ کے نزدیک تمام خلائق کی عبدیت سے اَحبّ اور افضل ہے۔ پس میرے نقشِ قدم پر اگر تم بھی چلو گے تو اس اتباع کی برکت سے تمہاری عبدیت اور غلامی دوسری امتوں سے عنداللہ اَحبّ اور افضل ہوجائے گی،اور تم خیرالامم اسی سبب سے ہو کہ تمہارا رسول بھی سیدالمرسلین ہے۔ رسول کی سیادت کی رعایت سے ان کے غلامو ں کو بھی سیادت کا شرف عطا فرمادیا گیا۔ بریں نازم کہ ہستم امّتِ تو گہنگارم و لیکن خوش نصیبمحضورﷺ کا اُسوۂ حسنہ کیسے معلوم ہو؟ اگر مسلمان اپنے ہر قول اور ہر فعل میں، اپنی ہر خوشی اورہر غمی میں پیدایش سے لے کر موت تک کی تمام رسموں میں اس بات کا لحاظ رکھے کہ ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر کیا حکم فرمایا ہے۔ اس سوال پر علمائے حق سے جو ان کو جواب ملیں اس پر عمل کرلیں،اور خاندان اور برادری سے بے خوف ہوکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کریں تو ان شاء اللہ! تمام گمراہیوں سے اور جاہلانہ رسومات سے محفوظ