معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
ظلِّ او اندر زمیں چو کوہِ قاف رُوحِ او سمیرغ بس عالی طواف مولانا فرماتے ہیں کہ یہ حضرات عارفین اولیائے اللہ ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے اجسام تو زمین پر چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ مگر ان کی رُوح مثل سیمرغ کے عرشِ عظیم کا طواف کرتی ہے۔ مراد اس سے مولانا کی یہ ہے کہ ان کی روحوں کو عالمِ قدس سے ایک خاص اتصال ہوتا ہے، عوام اس اتصال سے بے خبر ہوتے ہیں ؎ ماہیان قعرِ دریائے جلال بحرِ شاں آموختہ سحرِ حلال یعنی عارفین قعرِ دریائے جلال کی مچھلیاں ہیں، یعنی رازداں اور راز دار بارگاہِ حق ہیں، اس بحرِجلال نے ان کو سحرِحلال سکھادیا ہے، یعنی اُن کی باتوں میں ایسے انوار ہوتے ہیں جو دوسروں کو متأثر کردیتے ہیں۔قلبِ عارف اور حق تعالیٰ کے درمیان مخفی راہ درمیانِ شمس و دیں روزن رہی ہست روز نہا نشد زاں آ گہی مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس آفتابِ حقیقی اور ان کے قلوب کے درمیان ایک مخفی راستہ ہوتا ہے جس سے حق تعالیٰ شانہٗ کے نفحاتِ کرم پے در پے آتے رہتے ہیں، دوسرے لوگ اس دریچۂ باطنی سے آگاہ نہیں ہیں۔ ہمارے خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے خوب کہا ہے ؎ شاید کوئی اس رمز سے آگاہ نہیں ہے باتیں تو ہیں ہر دم مگر آواز نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ ان عارفین کے ساتھ جو لوگ تعلق پیدا کرتے ہیں اور جو ان کی صحبتوں