معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
حوصلے بھی نورِ معرفت کی برکت سے بلند ہوتے ہیں، بازِ سلطان دیدہ شیرِنر کا شکار کرتا ہے، وہ معمولی جانوروں کے شکار کا خیال بھی دل میں نہیں لاتا۔عارف کا حوصلہ عارفین کے حوصلوں کو کون پاسکتا ہے جب کہ وہ جہاں سے رُخ پھیرے ہوئے صرف اللہ کے طالب ہیں ؎ شد صفیرِ باز جاں در مرجِ دیں نعر ہائے لَاۤ اُحِبُّ الۡاٰفِلِیْنرُوحِ عارِف کی آواز عارف کی جان جو قربِ سلطان سے مثل بازِ شاہی کے ہے، دین کی چَراگاہ میں لَاۤ اُحِبُّ الۡاٰفِلِیۡنَکے نعرے لگارہی ہے، یعنی روحِ عارف کی آواز یہ ہے کہ میں فنا ہونے والی مخلوقات سے محبت نہیں کرتی ہوں ؎ ملک ِ دنیا تن پرستاراں را حلال ماغلامِ عشقِ ملکِ لازوال یہ دنیائے فانی کا ملک تن پرستوں کو مُبارک ہو، ہم تو ملک عشق لازوال کے غلام ہیں۔حکایتِ ایاز و شاہ محمود مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ نے ایاز اور محمود کا ایک واقعہ لکھا ہے کہ جب ایاز محمود کا محبوب اور مقرب ہوگیا تو اراکینِ سلطنت کو ایاز پر حسد ہونے لگا، رفتہ رفتہ یہ خبر محمود کو ہوئی، محمود بادشاہ نے ایاز کی خوبی اور اس کا کمال اراکینِ سلطنت پر ظاہر کرنے کے لیے ایک بار بہت سے بیش قیمت موتی اور جواہرات بکھیر دیے اور اعلان کردیا کہ جو جس چیز پر ہاتھ رکھ دے وہ اس کی ہے، ہر ایک نے حرص اور طمع سے مختلف چیزوں