معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
ہیں کہ اسی طرح ابلیس حضرت آدم علیہ السّلام کے خاکی پتلے سے متنفر ہوکر بھاگا اور نہ دیکھا کہ اس خاک میں وہ درّشاہ وار مخفی ہے جو خلیفۃ اللہ فی الارض کا مصداق ہے۔ اسی کو مولانا فرماتے ہیں ؎ خواجہ را جاں بیں مبیں چشم گراں مغز بیں او ر ا مبینش استخواں خواجہ را از چشمِ ابلیس لعِیں منگر و نسبت مکن او را بطیں خواجہ را کو درگذشت است از اسیر جنسِ ویں موشانِ تاریکی مگیر ۱) مولانا فرماتے ہیں کہ اس مرشدِ کامل کو جان سمجھ، جسمِ ثقیل مت سمجھ، یعنی محض اس کی ظاہری بشریت یعنی جسدِ خاکی پر نگاہ مت کر، بلکہ اس کے خاکی جسد میں جو اس کی عارف رُوح پنہاں ہے، اس حیثیتِ رُوحیہ متصفہ بالکمال پر نظر کر، اوصافِ جسمیہ مشترکہ کو مت دیکھ، اس کا مغز دیکھ، اس کی ہڈی مت دیکھ۔شیخِ کامل کوچشمِ ابلیس لعین سے مت دیکھو ۲) اس خواجہ کویعنی شیخِ کامل کو چشمِ ابلیس لعین سے مت دیکھ،اور اس کو صرف طین کی طرف منسوب مت کر، ورنہ محرومی کا وہی حال ہوگا جو اس دریائی گاؤ کا حال ہوا، یعنی جس طرح موتی پر کیچڑ دیکھ کر وہ موتی سے بھاگ جاتا ہے اور گوہر ہاتھ سے نکل جاتا ہے اسی طرح اگر تم اہل اللہ کے صرف ظاہری جسدِ عنصری پر نگاہ رکھو گے تو ان کی عارف رُوح جو مثل گوہر شاہ وار کے ہے اس سے بے خبر اور محرومِ فیض رہو گے، چناں چہ ابلیس لعین کی مردودیت کا یہی سبب ہوا تھا کہ اس نے حضرت آدم علیہ السّلام کو صرف طین یعنی مٹی کی طرف منسوب کیا اور آپ کی رُوح جو مصاحبِ حق تھی اس کے انوار و تجلیات سے بے خبر تھا، نتیجہ یہ ہوا کہ اپنے کو حضرت