معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
اور قہر دیکھ لیا، یعنی علمِ دین کی روشنی میں انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں کے ساتھ مال و دولت اور ظاہری شوکت سب سانپ اور بچھو ہیں،کیوں کہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ بہت سخت ہے، معلوم نہیں کہ کب اللہ تعالیٰ کی قہاریت اور غضب کا ظہور ہو جاوے، اس لیے اللہ والوں نے قارون کی ظاہری آرایش کی طرف راغب ہونے والے طبقے کو مخاطب کرکے یہ فرمایا کہوَیۡلَکُمۡ ثَوَابُ اللہِ خَیۡرٌ لِّمَنۡ اٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا؎ (اے نادانو!) ہلاکت ہو تم پر، اللہ کے گھر کا ثواب ہزار درجہ بہتر ہے جو ایمان والوں کو اور نیک عمل والوں کو ملتا ہے۔ مغضوب علیہ شخص پر لالچ کی نگاہ ڈالتے ہو!یہ کہنے والے کون لوگ تھے؟ قَالَ الَّذِیْنَ اُوْتُواالْعِلْمَیہ اہلِ علم کی جماعت تھی،یہ عنوان بتاتا ہے کہ صفتِ علم کا مقتضا یہی تھا جو انہوں نے کہا اور کس عنوان سے کہا؟وَیۡلَکُمۡناس ہو تمہارا!یہ عنوان بتاتا ہے کہ علم کا اثر اور نور ان کے دلوں میں ایسا پیوست اور راسخ تھا جس نے قارون کی ترقی کو ان کے دلوں میں نافرمانیٔ حق کے سبب مبغوض کردیا تھا۔ جب قارون پر خدا کا قہر نازل ہوا اور وہ مع اپنے خزانےکے زمین میں دھنسادیا گیا اس وقت جس ترقی پسند طبقے نے اس کے مال پر رال ٹپکائی تھی اس کو اپنی جہالت کا علم ہوا اور علمِ دین کی نعمت کی قدر معلوم ہوئی۔ پس معلوم ہوا کہ جو عالم علم کی نعمت کو دنیا کی نعمتوں کے عوض میں فروخت کرتا پھرے اس کو حقیقی علم نہیں عطا ہوا ہے۔مقرّب اور اجرت دار کا فرق سچا عالم مقرّبِ بارگاہ ہوتا ہے۔ مقرب پر ایک واقعہ یاد آیا۔ ایک بار میں نے حضرت مرشدی رحمۃ اللہ علیہ سے عرض کیا کہ حضرت! ایک بار درود شریف پڑھنے کی فضیلت میں وارد ہے کہ دس نیکیاں ملتی ہیں ، دس گناہ معاف ہوتے ہیں، دس درجے بلند ہوتے ہیں اور تلاوت ِقرآن شریف کے متعلق اس قدر فضائل وارد نہیں ہیں تو عجیب جواب ارشاد فرمایا، فرمایا کہ ایک اجرت دار ہوتا ہے، ایک مقرّبِ بادشاہ ہوتا ہے۔ مقرّب ------------------------------