معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
اِذَااَتَاکُمْ کَرِیْمُ قَوْمٍ فَاَکْرِمُوْہُ؎ جب تمہارے پاس کسی قوم کا معزز آوے تو اس کی عظمت کرو۔ جب امیر فقیر کے دروازے پر آ گیا تو اب وہ اچھا امیر ہے، کیوں کہ نِعْمَ الْاَمِیْرُعَلیٰ بَابِ الْفَقِیْرِ کا مصداق ہے۔ اب اس کے ساتھ بدخلقی کے ساتھ پیش آنا نفس کا تکبر ہے، اس راہ میں بڑی تراش و خراش کرنی پڑتی ہے تب کہیں اخلاص نصیب ہوتا ہے۔ حضرات صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی تعریف میں حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: یَدۡعُوۡنَ رَبَّہُمۡ بِالۡغَدٰوۃِ وَ الۡعَشِیِّ یُرِیۡدُوۡنَ وَجۡہَہٗ اس آیت میں حق تعالیٰ نے ان حضرات کا اخلاص بیان فرمایا ہے،یعنی اپنے رب کی عبادت سے ان کا مقصد محض رضائے حق ہوتی ہے۔یہ لوگ صرف ذاتِ حق کے طالب ہیں۔ بعض لوگ کثرتِ ذکر اور کثرتِ نوافل میں تو مشغول ہوتے ہیں مگر اخلاص نہ ہونے کے سبب عمر بھر ریاضت اور محنت کے باوجود مقصود سے محروم رہتے ہیں۔ایک بڑے میاں کا واقعہ جو خلافت حاصل کرنے کی نیت سے ذکروشغل کرتے تھے حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے یہاں ایک بڑے میاں عمر بھر خدمت کرتے رہے، ایک روز عرض کیا کہ حضرت! مجھے کچھ نفع نہ ہوا، ارشاد فرمایا کہ اپنی نیت ظاہر کرو، کس نیت سے میرے پاس اتنے زمانے سے ذکر و شغل میں مصروف ہو؟ عرض کیا کہ حضرت! نیت یہ تھی کہ کچھ دن ریاضت و مجاہدے کے بعد آپ جب خلافت عطا فرماویں گے تو دوسروں کو اللہ اللہ کرنا سکھاؤں گا۔ حضرت نے فرمایاکہ بظاہر تو نیت اچھی ہے لیکن اس کے باطن میں اس کا منشا جو ہے وہ سخت خطرناک ہے، یعنی طلبِ منصب کا بت چھپا ہوا تھا، اسی سبب سے آپ محروم رہے۔ نیت میں صرف رضائے حق ہونا چاہیے، پھر اس کے بعد حق تعالیٰ جو انعامات عطا فرماویں ان کا کرم ہے، مگر اپنی طرف سے غیرِ حق کو مقصود نہ بنانا چاہیے ؎ ------------------------------