معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
اس کا طریقہ بھی ارشاد فرمادیا کہ میری پہچان تو ان ہی کے ذریعے ہوگی جنہوں نے ہمیں پہچان لیا ہے، اَلرَّحۡمٰنُ فَسۡـَٔلۡ بِہٖ خَبِیۡرًا رحمٰن کی شان کو کسی باخبر سے پوچھو۔ جو ہمارے باخبر بندے ہیں یعنی جو ہم سے باخبر ہیں، اُن سے ہماری پہچان ہوگی۔ اب پھر سوال ہوتا ہے کہ یہ کیسے معلوم ہو کہ کون لوگ اللہ تعالیٰ کے باخبر بندے ہیں؟ تو اس سوال کا جواب وہیں موجود ہے جہاں اَلرَّحۡمٰنُ فَسۡـَٔلۡ بِہٖ خَبِیۡرًا ارشاد فرمایا ہے،اس آیت کے دو تین آیتوں کے بعد ہی اپنے باخبر بندوں کےان اوصافِ مذکورہ کو ارشاد فرمایا ہے تاکہ کوئی بے خبر مدعی نہ بن جائے کہ ہم بھی باخبر ہیں۔اللہ والوں کی پہچان کا ایک جامع اور نہایت سہل طریقہ ہمارے حضرت مرشدِ پاک رحمۃ اللہ علیہ نے ایک عجیب پہچان اللہ والوں کی ارشاد فرمائی ہے جو نہایت آسان ہے، وہ یہ کہ خواص امّت جس کو اللہ والا کہتے ہوں بس اس کا دامن پکڑلو، عوام کی بھیڑ ہر گز مت دیکھو، کیوں کہ عوام کی بھیڑ بدون بصیرت کے ہے، اس لیے ان کا ازدحام اور ہجوم کسی کے پاس اس کی صداقت کا معیار نہیں بن سکتا ہے،اور خواص امّت یعنی اس کے ہمعصر علمائے متقین جس کو اچھا کہیں گے تو وہ غلط نہیں ہوسکتا۔ یہ پہچان ہر شخص کے لیے آسان ہے، اور علماء و خواص امّت جس کو پہچانیں گے اس کو قرآن و حدیث کے ارشاد فرمودہ علامات سے پہچانیں گے، بس خواص کا پہچان لینا عوام کے لیے کافی حجت ہے۔ البتہ ایک شرط اور بھی حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے، وہ مناسبت ہے، یعنی جس اللہ والے سے دین حاصل کرے تو اس کے یہاں پہلے چند دن رہ لے،اور رہ کر دیکھ لے کہ مجھے اس شیخ سے مناسبت بھی ہے یا نہیں۔ اور مناسبت کی تعریف حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے یہ فرمائی تھی کہ پِیر کے مُباح افعال طالب کو اچھے معلوم ہوں اور طالب کے مباح افعال پیر کو بھلے معلوم ہوں، جب مناسبت ہوتی ہے تب ہی فیض ہوتا ہے، مقصود اللہ ہے، جہاں مناسبت معلوم ہو وہیں بیعت ہو، اگرچہ اس کی زیادہ شہرت بھی نہ ہو۔