معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
زمین آسمان میں اگر اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اور معبود واجب الوجود ہوتا تو دونوں کبھی کے درہم برہم ہوجاتے، کیوں کہ عادتاً دونوں ارادوں اور افعال میں تزاحم ہوتا اور اس کے لیے فساد لازم ہے، لیکن فساد واقع نہیں ہے۔ اس لیے تعددِ الٰہ بھی منفی ہے۔ سو ان تقریرات سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ جو کہ مالکِ عرشِ عظیم ہے اُن امور سے پاک ہے جو کچھ یہ لوگ بیان کررہے ہیں کہ اس کے اور شرکاء بھی ہیں۔ نوٹ: اسلام کے اصول یعنی توحید و رسالت کے مسائل عقلی ہیں، جیسا کہ آیت یَعۡقِلُوۡنَ سے اس طرف اشارہ ہے اور فروع کا عقلی ہونا ضروری نہیں۔ البتہ کسی دلیلِ عقلی قطعی کے خلاف نہ ہونا ضروری ہے۔ افسوس ہے کہ آج کل نوخیز طبائع ان دونوں کو مخلوط کرکے عجب چکر میں پڑجاتے ہیں، یعنی فروعات کو بھی عقل سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، جس کا نتیجہ و انجام بد دینی ہے۔ (از تفسیر بیان القرآن)اللہ تعالیٰ کے وجود پر عام فہم تقریر حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: اَمۡ خُلِقُوۡا مِنۡ غَیۡرِ شَیۡءٍ اَمۡ ہُمُ الۡخٰلِقُوۡنَ؎ کیا یہ لوگ بدون کسی خالق کے خود بخود پیدا ہوگئے ہیں یا یہ خود اپنے خالق ہیں۔ اس آیت کے اندر اللہ تعالیٰ نے منکرینِ توحید کو دو باتوں کے اندر ایسا گھیر دیا ہے کہ قیامت تک اس سے نکلنے کا موقع نہیں پاسکتے ہیں،یعنی دو ہی صورتیں ہیں یا تو انہوں نے خود ہی اپنے کو پیدا کرلیا ہے یا ان کو کسی نے پیدا کیا ہے، کیوں کہ پیدا ہونا ایک فعل ہے اور ہر فعل کے لیے کسی فاعل کا ہونا ضروری ہے۔ ظاہر ہے کہ جب انسان ایک وقت میں موجود ہی نہ تھا تو اپنے کو پیدا کیسے کرسکتا ہے، کیوں کہ پیدا کرنے والے کا وجود تو پیدا ہونے والی چیز سے پہلے ہونا چاہیے۔ ایک ہی شے فاعل ہو اور وہی شے مفعول بھی ہو، ایک ہی شے عامل بھی ہو اور وہی ------------------------------