معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
تو حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ بات یہ ہے کہ قرب کے درجات ہوتے ہیں، جن کی حد نہیں ہے، نہ نبوّت کے درجاتِ قرب ختم ہوتے ہیں نہ ولایت کے، پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا استغفار فرمانا کسی معصیت سے نہ تھا، بلکہ آپ کو جو ترقی درجاتِ قرب میں عطا ہوتی تھی تو ماسبق کے اعتبار سے استغفار فرماتے تھے،یعنی قرب کا ماسبق کا درجہ مابعد کے درجے سے کمتر معلوم ہوتا تھا اور خیال ہوتا تھا کہ اب تک کون سی چیز قرب کے اس درجۂ عالی پر پہنچنے میں مانع تھی، پس آپ اس چیز کو ذنب سے تعبیر فرماکر استغفار فرماتے تھے۔یہ حضرات مغزِدین جانتے تھے۔قرب کے درجات کے غیر متناہی ہونے کا ثبوت یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْاۤاٰمِنُوْا اے ایمان والو! ایمان لاؤ۔ قرب اور یقین کے غیر متناہی مراتب کا ثبوت اس آیت سے ہوتا ہے۔ ہمارے مرشدِ پاک حضرت مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے تفسیر’’بیان القرآن‘‘کے حاشیہ’’مسائل السلوک‘‘ میں اس آیت کے متعلق تحریر فرمایا ہے کہ ایمان لانے والوں کو ایمان لانے کا حکم فرمانا بظاہر تحصیلِ حاصل معلوم ہوتا ہے، کیوں کہ جب ایمان قلب میں موجود ہے تو پھر ایمان لانے کا حکم کیوں ہوا ہے؟ تو اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ یقین کے مراتب بہت ہوتے ہیں۔ اتنے مراتب ہیں کہ ان کا احاطہ محال ہے، بمعنیٰ لَاتَقِفُ عِنْدَ حَدٍّ ، کیوں کہ حق تعالیٰ شانہ‘ کی ذاتِ پاک اور اس کی صفتیں غیر محدود ہیں، پس مؤمنین سے ایمان لانے کا امر اس اعتبار سے ہے کہ فی الحال قلب میں جو درجہ یقین کا حاصل ہے اس کے اوپر کے مرتبے کی تحصیل کی کوشش کرتے رہو۔ اسی کو حضرت عارف رومی فرماتے ہیں ؎ اے برادر بے نہایت در گہیست آنچہ بر وے می رسی بردے مأیست اے برادر! حق تعالیٰ کی بارگاہ میں قرب کے غیر متناہی مراتب ہیں، جس مقامِ قرب پر