معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
کبھی وہ حالت مناسب ہے۔ اگر ہمیشہ ایک ہی حالت قائم رہے تو انتظامِ معاش وغیرہ منہدم ہوجائے، یعنی یہ تغیّرِ احوال کچھ مضر نہیں ہے، بلکہ اسی میں حکمت ہے، اسی کو حضرت سعدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ گہے بر طارمِ اعلیٰ نشینیم گہے بر پشت پائے خود نہ بینم اگر درویش بر حالے بماندے سرِ دست از د و عالم بر فشاندے سو سالک کو تغیّرِ احوال سے تنگ دل نہ ہونا چاہیے جب تک وہ معاصی تک نہ پہنچادیں، اور معاصی سے بچنا امر اختیاری ہے۔اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ تغیّر دوسرے سالکین کے تمکّن سے بھی ارفع ہے، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمکن کے مقابلے میں تغیّر ہے۔تقریر اِنَّہٗ لَیُغَانُ عَلٰی قَلْبِیْ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادِ پاکاِنَّہٗ لَیُغَانُ عَلٰی قَلْبِیْ میں جو غین مذکور ہے وہ مانع یا منقصِ تجلّی نہیں ہے، کیوں کہ وہ تجلّی جو آپ کے قلب پر ہوتی ہے اس قدر قوی النور ہے کہ خود اس غین کو بھی منوّر کردیتی ہے۔ چناں چہ ظاہر بھی ہے کہ وہ تعلقات اور توجّہات اِلی الخلق جو مصداق ہیں اس غین کا اور عامۂ مؤمنین کے لیےساترِ تجلیات ہیں، آپ کے لیے موجبِ زیادتِ قرب اور عینِ طاعت تھے، پس خود ان کی ظلمت جو اُن کی اصل وضع کا مقتضیٰ تھا بالکلیہ محو ہوگئی اور یہی حکم سب انبیاء علیہم السّلام کے لیے عام ہے،بخلاف اولیاءکے کہ اُن کے لیے حجبِ بشر یہ کسی وقت ساترِ تجلیات ہوتے ہیں، گو قوی الستر نہ ہوں۔ (ازکلیدِ مثنوی، دفترِ ششم،ص:۱۸۸) حضرت گنگوہی کی تحقیق کہ حضور ﷺکا استغفار کن اُمور سے تھا؟ حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے دریافت کیا کہ حضرت! حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مغفرت چاہنا کس بات سے تھا کہ آپ کی ذاتِ مبارکہ معصوم تھی؟